اسلام آباد کےنادیدہ گاؤں

 ۷ شمارہ 

مترجم: سلمان حیدر

HASHMI_main Issue 7

فوٹوگرافر: سارہ فرید | کالنجر اور گاندھیاں کی منظر

اسلام آباد میں چیک پوائنٹس اب عام ہیں، اور جب میں اسلام آباد کی شمالی حدود کے ساتھ ساتھ گاڑی چلاتی ہوں تو یہ جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ پاکستان بحریہ کی تعمیر کردہ طویل اور مضبوط دیوار میرے ایک طرف دارالحکومت کی نگران مارگلہ ہلز کے ساتھ ہے۔ گاڑیاں آہستہ ہوجاتی ہیں، بڑی متوازن ترتیب سے، اور جیسے ہی وہ بحریہ کے افسروں کے پاس سے گزرجاتی ہیں، ان کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ یہ افسر دن کے وقت کار کی کھڑکیوں سے اندر جھانکتے ہیں، اور رات کے وقت ڈرائیوروں کے چہروں پر روشنی پھینکتے ہیں۔ اچانک مجھے دور سے مسلسل ساتھ چلی آنے والی کنکریٹ کی دیوار میں خلا نظر آیا، میں ایک کچی سڑک ٹوٹے پھوٹے آغاز کو دیکھ سکتی تھی۔ میں نے اپنی گاڑی سے باہر نکل کر نیچے پتھروں کی طرف چلنا شروع کیا۔ اور تبھی مجھے یہ محسوس ہوا کہ شہر خود پر مسلط ان دیواروں اور وردی سے آگے شمال میں پھیلا ہوا ہے۔

ایک ناہموار راستے کے آخر میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے ختم ہوتے ڈھلوان پر مٹی کے بنے گھر، مویشی اور ایک پرانی حویلی نمودار ہوتی ہے۔شہر کی بڑی بڑی شاہراہیں اور پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی سفید سرکاری عمارتیں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نپی تلی چوکھونٹی عمارتوں والا وہ اسلام آباد جہاں میں پلی بڑھی اور جسے میں ساری عمر سے جانتی تھی کسی گاوں میں بدل گیا ہو۔ جیسا کہ مجھے بعد میں علم ہوا کالنجھر اور گاندھیاں نامی یہ گاوں اس دارالحکومت سے بھی پرانے ہیں، جس کی منصوبہ بندی اور تعمیر پاکستانی ریاست نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں کی۔ آج ان دیہات کا بحریہ کمپلیکس کی دیواروں نے محاصرہ کیا ہوا ہے۔

بحریہ کمپلیکس پاکستان میں مسلح افواج کی ملکیت میں چلنے والے بہت سے پھیلتے ہوئے ارضی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ گذشتہ کئی برسوں میں، مسلح افواج نے افسروں اور ان کے اہل خانہ کے لیے قریباً تمام بڑے شہروں میں رہائشی اور کمرشل زمینوں بڑی تعداد میں حاصل کر کے ان احاطہ بندی کی ہے۔ بلاشبہ، بحریہ کمپلیکس کی کالنجھر اور گاندھیاں میں، اور اس کے گرد توسیع پاکستان میں تبدیلی کی واضح مظہر ہے۔ اوکاڑہ سے ڈیرہ بگٹی تک، مسلح افواج ملک بھر میں زمینیں حاصل کرکے انہیں ڈویلپ کر رہی ہےجس کے نتیجے میں انہیں اکثر اوقات پرامن اور کبھی کبھار جارحانہ ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ مسلح افواج کا زمین حاصل کرنے، اس کی آبادکاری اور تقسیم میں کردار نیا نہیں ہےکہ برطانوی حکومت مخصوص علاقوں جہاں انہیں وفادار افسروں کی ضرورت ہوتی تھی جاگیریں، یا زمینیں تقسیم کیا کرتی تھی، لیکن فوج توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت تیزی سے اور مسلسل زمین حاصل کررہی ہیں۔ اس وقت افواج پاکستان کے پاس کسی بھی ادارے یا گروہ سے زیادہ زمین ہے۔ ایک نمایاں دانشور عائشہ صدیقہ نے بتایا ہے کہ زمین کے مالک دوسرے ریاستی اداروں مثال کے طور پر ریلوے کے برخلاف ، مسلح افواج ریاستی زمین کو پرائیویٹ اثاثوں میں تبدیل کررہی ہے جس کے بعد اسے قانونی طور پر فوجی برادری کے اراکین میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (صدیقہ 2007:175)۔

تاہم، بڑھتے ہوئے اسلام آباد والوں کی ایک کلاس ، جسے میں جانتی ہوں، بحریہ کو بڑی پاکستانی فوج کا ایک بےضرر وِنگ سمجھتی ہے۔ اسلام آباد کے جی سیکٹر میں اپنا ہیڈکوارٹر منتقل کرنے پہلے بحریہ کا ہیڈکوارٹر کراچی میں تھا، بحریہ نے شہریوں کے لیے سکول بنائے اور ایک چھوٹی مارکیٹ جو اسلام آباد کے خریداروں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اس وقت، بحریہ کمپلیکس تک شہریوں کی رسائی کہیں آسان تھی، اور شہر اور ملک پر حاوی بڑھتے ہوئے سیکورٹی خدشات کی نسبت رکاوٹیں بہت کم تھیں ۔ بحریہ کمپلیکس کے اندر باہر عام لوگوں کی کافی زیادہ نقل و حرکت اور رسائی کے باوجود، افسروں کو دارالحکومت میں ترجیحی پوزیشن حاصل تھی۔ جب بحریہ نے مارگلہ کی پہاڑیوں کے کنارے پر بسے شہر کے شمالی ای سیکٹر میں منتقلی کا فیصلہ کیا تو مسلح افواج نے بازاری نرخوں کے مقابلے میں بہت رعایتی قیمت پر زمین حاصل کی۔

آج بحریہ کی زمینیوں پر میرے گھر والوں اور دوست احباب کا اکثر آنا جانا، ایک پرانی یاد لگتی ہیں۔ دوہزار نو میں راولپنڈی میں مسلح افواج کے جنرل ہیڈکوارٹر پر حملے، اور دوہزار گیارہ میں پاکستان نیول بیس پی این ایس مہران کراچی پر حملے کے بعد، بحریہ کمپلیکس نے اپنا سیکورٹی پروٹوکول کئی گنا بڑھادیا ہے۔ اب باقاعدہ مناسب شناخت اور کمپلیکس کے رہائشی کسی فرد کی پہلےسے طے شدہ دعوت کے بغیر کمپلیکس میں جانا ممکن نہیں۔ کمپلیکس کی حدود میں جہا ں پہلے شہر کے کسی قدرتی توسیعی حصے کی طرح ادھر سے ادھر آنا جانا آسان تھا، اب وہاں بحریہ کے مسلح گارڈز کی بھاری نفری موجود ہے۔

جتنا میں کچی سڑک پر آگے بڑھی، اتنا ہی میں بحریہ کمپلیکس کے گیٹ پر کھڑے سیکورٹی کے آدمیوں سے دور اور ان دونوں دیہات سے قریب ہوتی گئی جو فوج کی موجودگی سے پہلے اسلام آباد کی سرزمین کا حصہ تھے۔ اگرچہ میرے گھر والے اور دوست احباب اپنی زندگی انہی علاقوں میں گزار رہے ہیں جو تبدیلی اور سیکورٹی کی فضا کے نتیجے میں ہونےوالی پریشانی سے نسبتاً کم متاثر ہیں تاہم یہ دونوں دیہات اور ان میں رہنے والے لوگوں نے اسلام آباد میں آنے والی اس تبدیلی کی تکلیف کو محسوس کیا ہے۔ نئی تبدیلیوں کے درمیان، یہ دونوں دیہات کالنجھر اور گاندھیاں نواحی علاقہ بن گئے ہیں جنہیں سیکورٹی کے نام پر شہر کے کنارے پردھکیل دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس راستے پر پیدل چلنا اسلام آباد کی تاریخ کے راستے پر چلنے جیسا ہے۔ جہاں دارالخلافہ کی کہانی اس کی زمینوں پر نقش ہے۔

* * *

باقی ماندہ ملک کی طرح، کالنجھر اور گاندھیاں بڑھ رہے ہیں۔ اسلام آباد کی دلکش پہاڑیوں کے دامن میں بنے، جہاں کھمبوں سے بندھے مویشی گھروں کے درمیان خلا کو پر کرتے ہیں، یہ گاوں ان علاقوں میں بھی بسے ہوئے ہیں جنہیں نیشنل پارک کا نام دیا گیا تھا۔ علاقے کی دلکش خوبصورتی کے علاوہ، اس گاوں کی معیشت دارالخلافہ سے گہری جڑی ہوئی ہے، دارالخلافہ جو ان کے گرد بڑھ رہا ہے۔ کالنجھر گاوں کے بہت سےرہائشی بحریہ کمپلیکس میں گھریلو کام، مالی یا اسپتالوں اور اسکولوں کے اسٹاف کی ملازمت کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ رہائشی ملحقہ شہر کا بطور افرادی وقت ناگزیر حصہ ہیں، بہت سے لوگ خود کو اس ترقی، سیکورٹی اور منطق کا حصہ نہیں سمجھتے جو اس کی ترقی کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بڑھی ہے۔

Photographer: Sara Farid | Peaceful vistas of Islamabad

فوٹو گرافر: سارہ فرید | اسلام آباد کے پرسکون مناظر

“گذشتہ ساٹھ برسوں میں نئے تعمیر ہونے والے شہر اسلام آباد میں ہمارا گاوں پرامن رہا ہے۔ اب بحریہ نے خود کو الاٹ کئے گئے سیکٹروں کے باہر دیواریں، اور نئے دفاتر تعمیر کرلیے ہیں۔ ان میں سے کچھ تعمیرات، جیسے دیوار، جو بحریہ نے تعمیر کی، انہوں نے ہمارے گاوں کی کچھ زمین بھی لے لی۔” قذافی خان کا کہنا ہے جو ایک درمیانی عمر کا گاوں کا رہائشی ہے۔

بہت سے دوسرے کالنجھر اور گاندھیاں گاوں کے رہائشیوں کی طرح، خان بھی ان دیہات میں نسل ہا نسل سے آباد ہے۔ سالہا سال سے اس نے گاوں کو ایک چھوٹی کمیونٹی ، جو اس کےمطابق مغل ذات کے خاندانوں کا مسکن تھی، سے بڑھتے دیکھا ہے اور ان پھیلتے ہوئے گھروں میں وہ جوان ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس ترقی کی بڑی نشانی ان گھروں کے طرز تعمیر سے صاف نظر آتی ہے۔ جیسے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں، اور ان کا اپنا خاندان بنتا ہے، وہ اس گھر کو بڑھا لیتے ہیں، جس میں وہ رہتے ہیں، کمرے تعمیر کرلیتے ہیں جو ان کے والدین کے بنائے گھروں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے علاوہ کالنجھر اور گاندھیاں میں زیادہ گنجان تعمیرات نہیں ہیں جیسے شہر کی دوسری کچی بستیاں ہیں۔ جو کہیں اور جابنی ہیں، جیسے ایف سیون کی فرانس کالونی جو شہر کے درمیان تھی، جہاں رہنے والوں کو گھر کے اوپر تعمیرات کرنا پڑتی تھیں، کیونکہ ان کے گھروں کے گرد مزید جگہ نہیں تھی۔ یا افغان بستی جو اسلام آباد کے دیگر کناروں آئی الیون میں جہاں خستہ مٹی کے گھر کھڑے ہیں جو بالکل آرام دہ نہیں ہیں۔ لیکن شہر میں ان کچی بستیوں کی طرح، دونوں دیہات کے رہائشی بھی دارالخلافہ کی سیکورٹی منطق اور وسعت سے خوفزدہ ہیں۔ جہاں اسلام آباد میں ریاستی حکام کی جانب سے دارالخللافہ کے بڑھتے ہوئے مفاد میں کچی بستیوں کے رہائشیوں کو خطرہ قرار دیتے ہوئے انخلا کی حالیہ کوششیں کی گئیں،ان کو بتایاگیا، وہ پرکشش زمینوں پر قابض ہیں جن پر ان کا کوئی حق نہیں، اور غیرمنظم گھروں میں رہتے ہیں، جو دارالخلافہ کو بدصورت بنارہے ہی، وہ جو دیہات میں رہتے ہیں، انہیں بھی دارالخلافہ کی سیکورٹی خدشات کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

مظفر خان کے مطابق، جو شہر کی منصوبہ بندی کرنے والی ابتدائی بیورکریٹک باڈی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حالیہ ریٹائر ہونے والے ڈائریکٹر ماحولیات ہیں اسلام آباد کی زمین حاصل کرنے کا اختیار رکھنے والی باڈی، کا آغاز دوہزار دو میں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ” سب سے پہلے سیکورٹی وجوہات کیلئے، بحریہ نے مارگلہ ہلز کے قریب سڑک بند کردی، جہاں بحریہ کے کمانڈر کی رہائش تھی۔ پھر انہوں نے پہاڑیوں کے قریب ایک چلنے والا راستہ بنایا اور اس کو جالی والی باڑ لگا کر محصور کرلیا، تاکہ اسے صرف بحریہ کے افسر اور ان کے اہل خانہ استعمال کرسکیں۔”

خان نے بتایا کہ دوہزار دو وہ سال تھا جب بحریہ کا ہیڈکوارٹر کالنجھر اور گاندھیاں کے قریب موجودہ مقام پر منتقل ہوا۔ اور یہ وہ سال تھا، جب کیپٹیل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ کو باڑ تعمیر کرنے کے لیے ” نو اوبجیکشن سرٹیفیکیٹ” دیا۔ بحریہ کے بڑھتے ہوئے اور پتھریلے سیکورٹی انفراسٹرکچر کے بارے میں بےتکلفی سے اس نے بتایا۔ تاہم خان یاد کرتا ہے کہ باڑ رفتہ رفتہ دیوار بن گئی، جیسے جیسے بحریہ کے سیکورٹی خدشات بڑھے۔

اگرچہ بحریہ کے سیکورٹی خدشات ان کی تنصیبات پر حقیقی حملوں، اور مسلح افواج کو دھمکیاں جاری ہونے کے بعد بڑھے، انہوں نے مقامی دیہاتیوں کیلئے اپنی زمینوں پر تجاوزات کی مخالف کی گنجائش نہیں چھوڑی۔

قذافی خان رہائشی کے مطابق، دیہاتی علاقے میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی انفراسٹرکچرسے ان کی تکلیف بڑھ رہی ہے۔

اس نے کہا کہ”بحریہ نےپہلے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر دیوار تعمیر کی، لیکن بعد میں مقامی دیہاتیوں اور پوری وادی کیلئے رسائی ختم کردی، بشمول وادی کے ان حصوں کے جو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا حصہ ہیں۔”

_MG_2255 copy

فوٹو گرافر: سارہ فرید | بحریہ کامپلکس کو دیہاتوں سے جدا کرنے والی دیوار

اگرچہ مسلح افواج کے نقطہ نظر سے بڑھتا ہوا انفراسٹرکچر قابل فہم ہے، لیکن رہائشی بحریہ کی گاوں تک وسعت کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ دیوار، جو بحریہ دعوی کرتی ہے کہ عدم تحفظ کو ختم کرنے کے لیے ہیں، دلالت کرتی ہے کہ رہائشی اس خطرےکا لازمی حصہ ہیں جن کا فوج کو سامنا ہے۔

، سابق پرویز مشرف کے فوجی دور حکومت میں اور موجودہ مسلم لیگ نواز کی حکومت میں یہ ایک احساس ہے کہ وہ کچی بستیوں کے رہنے والوں کی طرح، رہائشیوں کے بجائے سیکورٹی خدشہ ہیں ۔

دیہاتی جن کا نام ظاہر نہیں کیاگیا، ان کا کہنا ہے کہ انہیں ریاست میں بنائے جانے والے سیکورٹی منصوبے میں نظرانداز کیاگیا ہے۔

کالنجھر اور گاندھیاں کی حدود بحریہ کمپلیکس کو دینے سے، دیہاتیوں کو بھی خطرات ہیں، اور ابھی تک بحریہ نے انہیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا۔ دیہاتیوں کو ایسا لگا ہے کہ بڑھتا ہوا سیکورٹی انفراسٹرکچر صرف بحریہ کے افسروں کے لیے ہے۔

جواب میں گاوں کے رہنےوالوں نے اپنی زمینوں پر مزید تجاوزات روکنے کیلئے اپنی ایک دیوار تعمیر کی، اور اختلاف کے حل کیلئے اپنےروابط کے ذریعے مسلح افواج کو اندرونی پیغامات بھیجے۔ انہوں نے بحریہ اور کیپٹل ڈویلپمنٹ اٹھارتی سے بات چیت کرنے کےلیے ایک کمیٹی بھی بنائی، جسے بحریہ اور سی ڈی اے نے بحریہ کے اقدامات کے لیے قانونی اور ادارتی دفاع پیش کیا۔

قذافی خان نے کہا کہ اس نے بحریہ کے افسروں تک رسائی کیلئے فوج میں اپنے ایک رشتہ دار سے رابطہ کیا تاکہ انہیں قائل کرسکے کہ اس زمین پر پہلے سے آباد لوگوں کا حق ہے۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

خان نے وضاحت کی کہ ” بحریہ اپنے افسروں کے گھر تعمیر کرنے کیلئے ہماری زمینیں حاصل کرنا چاہتی ہے، تاہم ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا اس زمین پر زیادہ حق ہے کیونکہ یہ ہماری جدی پشتی کی زمین ہے۔”

تاہم، دیہاتیوں کے مقابلے نے اسے حل کرنے کے بجائےمزید مسائل پیدا کردئیے ہیں۔ اپنے مسائل کو ٹھیک کرنے کے بجائے، بحریہ نے دیہاتیوں کی روزمرہ زندگی کے معمولات میں رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔

خان نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بحریہ کمپلیکس ہمارے نزدیک ترین ہے۔ اسپتال اور اسکول وہاں ہے۔ پہلے ہم دوسرے شہریوں کی طرح اپنے شناختی کارڈز گیٹ پر چھوڑ کر اندر جاسکتے تھے۔ لیکن ہماری مزاحمت کے بعد سیکورٹی گارڈز ہمیں کبھی کبھار ہی اندر جانے دیتے ہیں۔”

دیہاتیوں کی مزاحمت اور مشکلات نے دیہاتیوں اور شہر کی ماحولیات والا کا ایک انہونا اتحاد بنادیا ہے۔ ہمالیہ جنگلی حیات فاونڈیشن کے ڈاکٹر انیس الرحمان ماحولیات والوں میں سب سے زیادہ صاف گو آدمی ہیں، انہوں نے کہا کہ مسلح افواج ماحولیات کے قواعد کو روندنے کیلئے سیکورٹی کا بہانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” مسلح افواج نے چاردیواری کے ستونوں کو نیشنل پارک میں منتقل کردیا ہے۔ پارک میں کسی بھی تبدیلی کیلئے ماحولیات کے قوانین کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کوئی شخص یا ہرشخص، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سیکورٹی خدشات ہر چیز مسترد کردیتے ہیں، اور سیکورٹی کی دلیل بنانا بہت آسان ہے۔”

ان کی بحریہ کی حفاظتی تجاوزات پر مایوسی ماحولیات اور گاوں والوں میں اتحاد کی بنیاد ہے۔

ڈاکٹر رحمان کا کہنا ہے کہ “اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ دیہاتیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیاجائے۔ ان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بجائے انہیں جائیداد کے حقوق دئیے جائیں۔ بحریہ اور دیہاتیوں کے درمیان تمام تر اختلافات اور عدم اتفاق کے باوجود، اگر انہیں مسئلہ کے طور پر دیکھے جانے کے بجائے حل کا حصہ بنایاجائے تو اس کا مسلح افواج اور مقامی رہائشیوں دونوں کو فائدہ ہوگا۔

ڈاکٹر رحمان کی نظروں میں، مسلح افواج کے خلاف دیہاتیوں اور ماحولیات والوں کا انہونا ملاپ آگے بڑھنے کے ممکنہ راستے کا اشارہ ہے، کیونکہ شہریوں کو ہر روز فوجی تجاوزات کی بڑھتی ہوئی شکل اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔

* * *

پاکستان کےدہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا لازمی حصہ بننے کے نتیجے میں، گیارہ ستمبر کے بعد سیکورٹی اس جنگی ماحول میں ایک نئی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر بحث کی جاسکتی ہے کہ بحریہ کی دیوار کی تعمیر اور زمینوں میں مداخلت کو محض ایک اتفاق کے طور پر دیکھا جانا چاہئیے یا نہیں۔

دوہزار ایک کے اگلے برسوں میں، پاکستانی ریاست اور تعلیمی اور صحافتی ریسرچ کرنے والوں کے گروہ نے اندرونی عدم استحکام کو بڑے اور عالمی خطرے کا حصہ قرار دیا ہے۔ حتی کہ بجلی کی کمی کی تصویر کشی ایک تیزانحطاط سے آگے بڑھ کر ایک تباہی کے طور پر کی گئی۔

گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا میں اس بیانیے کے استعمال سے، ریاست نے ایک ایسی روایت بنادی جس نے عام شہریوں کے احتجاج کے لیے مشکلات بہت بڑھادیں۔ اسی طرح کی کوششوں میں اسلام آباد کی کچی بستیوں میں رہنے والوں کو ان کی رہائش گاہ سے پیچھے دھکیل دیا گیا، جہاں ان میں سے بعض چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے، اور جو غریبوں کیلئے رہائشی بستیوں کی تعمیر اور بے جا انخلا کے بارے کوئی بات کرنا چاہتے تھے انہیں سیکورٹی کا کہ کر خاموش کردیا گیا۔

اگرچہ دوہزار ایک نے بڑھتی ہوئی سیکورٹی کی توجیح کی روایت کو مضبوط کیا، لیکن مسلح افواج کی توسیع پسندی کی بہت گہری اور طویل تاریخی جڑیں ہیں، خصوصاً جب یہ ہمارے اردگرد بندوبست کو منظم کرنے سے متعلق ہے۔ فوج نے خاص طور پر اور بحریہ اور فضائیہ نے نسبتاً کم، ملک کے میں زمینوں کی سیاست میں ایک جاندار کردار اداکیا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیشہ مزید پھیلتی ہوئی لاہور، اسلام اور کراچی کی ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی اور تمام بڑی نمایاں زمینی ڈویلپمنٹ کی سکیموں کو پیش کیا جاسکتا ہے جو سالہاسال سے ملک کی شہری ارضی کے منظر نامے کو کا فی تبدیل کرچکی ہیں۔ پاکستان فوج نے شہری علاقوں کے قریب مفت یا بےحد رعایتی پر زمینیں حاصل کر کے انہیں اپنے افسروں میں بانٹ دیا۔ یہ زمینیں حاصل کرنے والے کسی پابندی کے بغیر یا معمولی قدغن کے ساتھ اسے عام مارکیٹ کے نرخوں پر بیچنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ اپنی کتاب “ملٹری انکارپوریشن- پاکستان فوجی معیشت کی اندرونی معاملات ” میں پنجاب میں سانیجنی میں آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کے ایک منصوبے کا حوالہ دیتی ہے، بارہ اعشارہ چار ایک ملین امریکی ڈالر سے بننے والے اس منصوبے سے اس کے ارکان نے ایک محتاط اندازے کے مطابق چار سو تیرہ اعشاریہ چار نو ملین امریکی ڈالر کا منافع کمایا۔

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے میں پماری مدد کیجیے۔ پاکستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

صدیقہ کہتی ہے کہ بلاشبہ یہ اشرافیہ جماعتوں کے ملی بھگت کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔

عائشہ کہتی ہیں کہ “پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے شاطر کھلاڑی اور دیگر غالب گروہوں کے لوگ اس طرح جڑے ہوئے ہیں ، جس طرح سول بیوروکریسی اور کاروباری جماعت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہیں فوجی برادری کی شراکت کے ساتھ۔ چونکی ملک کا سیاسی و سماجی نظام غالب طور پر آمریت پسندانہ ہے، اور سرمایہ دارانہ ساخت کا ہے، اس لیے حکومتی جماعتیں اپنی معاشی، سیاسی اور ذاتی مفاد کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کے مخالف نہیں ہیں۔ ان کی اشرافیہ مسلح افواج کو طاقتوربنانا جاری رکھتی ہے، اور فوجی برادری کے ایک جماعت میں ارتقاء کی عمل میں تعاون کرتی ہے۔”

Photographer: Sara Farid | Father walks with his children along the boundary wall to the Naval Complex

فوٹو گرافر: سارہ فرید | ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ بحریہ کامپلکس کی دیوار کے ساتھ چلتا ہوا۔

اشرافیہ کی یہ خفیہ مفاہمت پاکستان کے شہری علاقوں جیسے اسلام آباد میں زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ جب انیس سو ساٹھ میں یونانی ماہرتعمیرات کونستینتنوس ڈوکسیائڈس نے اسلام آباد کے بارے میں سوچا، تو یہ سوچا گیا تھا کہ اس شہر میں غریب لوگ نہیں ہوں گے۔ شہر کی اشرافیہ نے اسے اسی طرح بنانے کا منصوبہ بنایا، اور ایسا کرنے کیلیے فوج کی مدد اور اردگرد کے سیکورٹی خدشات کو فہرست میں شامل کرکے اسے ایک موثر ذریعہ بنالیا۔

بلاشبہ، مسلح افواج کے کاروباری اقدامات، جس کے ذریعے وہ ملک میں سب سے بڑے زمینوں کے خریدار بن گئی ہے، نے گیارہ ستمبر کے سانحے کے بعد سکیورٹی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اونچی ہوتی دیواروں، چیک پوائنٹس کی بڑھتی ہوئی تعدادکے ذریعے کنٹونٹمنٹ اور بڑے شہروں مین زمینوں پر اپنا تسلط بڑھایا ہے ۔ گیارہ ستمبر کے بعد۔ بہت سے معاملات میں بڑھتی ہوئی سیکورٹی نے لوگوں کی زندگی میں سخت مداخلت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ کسی عوامی راستے کو تحفظ کے نام پر کنکریٹ کی رکاوٹوں سے بند کرنا عام بات ہے۔ اس طرح کی استشنائیات سیکورٹی انفراسٹرکچر کا حصہ ہوتی ہیں جو اپنے جا بجا ہونے کی بنا پر ایک معمول کی اور قابل قبول بات بن جاتی ہے۔

اس طرح کی صورتحال میں، تجاوزات کے سوال کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ یہ غریب نہیں جو ریاست یا عوامی زمین پر تجاوزات قائم کررہے ہیں۔ بلکہ یہ سیکورٹی کے مفروضے پر بنایا جانے والا انفراسٹرکچر ہے جو عوامی زمینوں کو ہڑپ کررہا ہے جس سے شہریوں کے ماحولیات میں براہ راست فوج کی مداخلت ظاہر کرتی ہے۔ اور اس کی قانونی شکل اور اس پر مباحثہ یہ فرضی استثنا ریاستی اشیاء پر تعمیر کیاگیا ہے۔

اس صورتحال میں، کالنجھر اور گاندھیان گاؤں اور بحریہ کمپلیکس کے درمیان وہ تناؤ جس کا قذافی خان نے تذکرہ کیا ہے، بتاتا ہے کہ یہ سیکورٹی اقدامات اور فوج گردی پاکستانیوں کی روزمرہ زندگی کو کس کس طرح متاثر کررہی ہے۔ بلاشتبہ، یہ سب کبھی کبھار ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک منظم اور ٹھوس حقیقت کے طور پر کررہے ہیں۔ یہ تناو شہری حکام، ملک کی فوجی صنعتی کمپلیکس، اوراسلام آباد کے شہری دیہاتی غریبوں میں سرایت کرچکا ہے۔ اس مخصوص علاقے میں دیہاتیوں کا بحریہ کے ساتھ جھگڑے کو ایک واحد واقعے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، حقیقت میں یہ ایک بڑی تبدیلی کا حصہ ہے، جو پاکستان میں سیکورٹی کی منطق اور اس کی بنا پر لوگوں کے( شہریوں کے درجے سے) اخراج پر روشنی ڈالتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کی کہانی صرف تحفظ سے بڑھ کر ہے۔ یہ زمین حاصل کرنے، مداخلت اور نقل مکانی کی بھی کہانی ہے۔

***

کالنجھر اور گاندھیاں جانے والے سڑک کے ساتھ ایک سرسبزوشاداب گالف کورس ہے۔ یہ علاقہ ایک باڑ کے پار نظر آتا ہے، اورمارگلہ ہلز سے ایک شاندار نظارہ پیش کرتا ہے۔ سڑک کے ساتھ ڈرائیور کرتے ہوئے تکنیکی طور پر “سبزعالاقہ” کہلانے والے جگہ پر گالف کھلانے والے لڑکے اور اڑتے ہوئے گالف کے گیند دیکھے جاسکتے ہیں، دوسرے لفاظوں میں وہ زمین جس پر عمارتیں یا تعمیرات کے لیے نہیں ہے۔ یہ زمین سی ڈی اے سے کئی برس پہلے حاصل کی گئی تھی۔

ایک ریٹائرڈ بحریہ کے افسرنے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ سبز علاقے کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ گالف کا میدان درحقیقت سبز برقرار رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عوامی ہے کیونکہ کوئی بھی اس کا رکن بن سکتا ہے۔ جب میں نے ان سے دیوار اور اس کے باعث دیہاتیوں کے ساتھ پیدا ہونے والے تناؤ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ دیوار عوامی سڑک پر تعمیر کی گئی کیونکہ یہ بحریہ ہیڈکوارٹر میں رسائی کا ذریعہ ہےاور سڑک کے پار سب کچھ بحریہ کی پراپرٹی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ، “اول تو یہ کہ دیہات کے رہائشیوں کے پاس اس جگہ رہنے کا کوئی قانونی حق نہیں، اس لیے یہ بحریہ پر تجاوزات کا بہتان نہیں لگاسکتے۔”

ان کا جواب پہلے اور اولین طور پر کالنجھر اور گاندھیاں گاؤں کی قانونی حیثیت پر طویل عرصے سے موجود ابہام پر روشنی ڈالتا ہے۔ گاؤں کے کچھ حصے گرین ایریا میں ہیں، جس کی تکنیکی طور پر اجازت نہیں۔ مزید برآں، سی ڈی اے کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ محمد عاصم کھچی دعویٰ کرتے ہیں کہ شہری انتظامیہ نے انیس سو تریسٹھ میں تلافی کے طور پر گاؤں حاصل کیے جب اسلام آباد بننا شروع ہوا۔ تاہم، قذافی خان، رہائشی نے کہا کہ سی ڈی اے نے زر تلافی دینے کا عمل کبھی مکمل نہیں کیا۔

———————————————————————————————————————————

اس مضمون کو آپ تک پہنچانے میں ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی لگا ہے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

تاہم بالواسطہ طور پر، بحریہ کے ریٹائرڈ افسر کا قول اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام آباد کے اقتصادی طبقوں میں قانون کے نفاذ میں امتیاز ماجود ہے جیسا کہ خان نے واضح کیا ہے ۔ بلاشبہ پورے دارالخلافہ میں گرین ایریاز میں تعمیرات کی گئی ہیں، لیکن جو زیادہ غریب ہیں ان کے خلاف ہونے والے اقدامات کثرت سے اور ناقابل معافی ہیں۔ خان کے مطابق ایک طاقتور فوجی ادارہ جیسے بحریہ اکثر زمینوں کے حوالے سے زور زبردستی کرنے کو ترجیح دیتا ہے، اس سلسلے میں گالف کورس ایک اہم مثال ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک معاملے میں سی ڈی اے نے بحریہ کی توسیع کو روکنے کی کوشش کی، لیکن انہیں اعلی سظح کے بحری افسروں سے سامنا ہونے پر دفتر واپس لوٹنا پڑا۔ جب میں نے کھچی سے پوچحا سی ڈی اے کے فوج کے متعلق اختیارات کے بارے میں تو اس نے اعتراف کیا کہ اگرچہ اس مسئلے پر گفتگو ہوتی رہی، لیکن سی ڈی اے نے بحریہ کی سرگرمیوں کو کبھی بھی خلاف ورزی یا مداخلت کے طور پر ظاہر نہیں کیا۔

اس کے مقابل ریٹائرڈ سی ڈی اے اہلکار مظفر خان نے قرار دیا کہ بحریہ بلاشبہ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عوامی زمین پر قبضہ کر رہی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ یہ طاقتور کے کمزور کے خلاف مخصوص حربے کو ظاہر کرتی ہے۔ حتی کہ ایسا ریاستی اداروں کے درمیان بھی ہے۔ اگرچہ سی ڈی اے نے اس مداخلت کا نوٹس لیا، لیکن مسلح افواج نے اپنی مرضی کے مطابق اپنا کام جاری رکھا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ “سیکورٹی خدشات نے عوامی جگہوں پر ہر طرح کی تعمیرات، قوانین کی خلاف ورزی یا قبضے جیسے ہر عمل کے لیے استثنا کا کام دیا ہے۔ـ

***

جس طرح کالنجھر اور گاندھیاں کے رہائشیوں کی زندگیاں ان کا گھیراو کرنے والے بحریہ کمپلیکس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، وہ مارگلہ ہلز کے کناروں پر لکھا ہوا ہے، جہاں بحریہ کمپلیکس موجود ہے۔

ان دیہات میں ایک عام دن کی فلم بندی کی جائے، تو کوئی بھی رہائشیوں کو اس بحریہ کمپلیکس میں آتے اور جاتے دیکھ سکتا ہے جو رفتہ رفتہ ان کی زندگی پر اپنا تسلظ بڑھاتا چلاجا رہا ہے، کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ کام کرتے ہیں اور اپنا روزگار کماتے ہیں۔ ان دیہاتیوں نے جن سے میں نے بات کی تھی بتایا کہ قانونی و طبقاتی امتیاز دارالخلافہ کے اس دوردراز علاقے میں ترقی کو سہارا دینے کے لیے ایک تیزی سے سامنے ااتی ہوئی منطق بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تلخ لگتا ہے لیکن وہ کوشش کررہے ہیں کہ گفتگو کا رخ بدلاجائے بات چیت کے جاری عمل کے ذریعے تاکہ وہ بھی یہاں رہ سکیں اس زمین پر جو کبھی صرف ان کے لیے مخصوص تھی۔

اس دوران قذافی خان کہتا ہے کہ وہ اچھے کی امید رکھتا ہے۔

زہرہ ہامشی مشی گن یونیورسٹی میں علم بشریات اور تاریخ کی طالبہ ہیں۔ آپ سکیورٹی انفراسٹرکچر اور پاکستان کی شہری علاقوں میں خبر رسانی کے برقی ذرائع کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

 

One Response to

اسلام آباد کےنادیدہ گاؤں

  1. […] کے نصب العین کے مطابق دو تحقیقی مقالے بھی لائے ہیں۔ زہرہ ہاشمی اسلام آباد میں گاؤں کی زمین پر نیوی کی تجاوزات بارے […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *