ترجمہ: محمد اکرم
بلال تنویر، دا سکیٹر ہئیر از گریٹ ( یہاں بکھیرا بہت زیادہ)۔ نئی دلی: رینڈم ہاؤس۲۰۱۴ء

Bilal Tanweer, The Scatter Here is Too Great (New Delhi: Random House, 2014) | Click through and get it today! Your click through will also help support Tanqeed.
دا سکیٹر ہئیر از گریٹ بظاہر افسانوں کا ایک مجموعہ لگتا ہے۔ پڑھتے ہوئے ہو لگتا ہے جیسے چلتی ریل سے باہر کے نظارے کی جھلکیاں دیکھنے کو مل رہی ہوں۔ یا ناول کے موضوع مکررہ کی طرز پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسی بس کی طرح جو ٹریفک جام سے رینگتی ہوئی گزر رہی ہو۔ بے ربط نقاط نظر سے دھندلے خاکے ابھرتے ہیں اور پھر اتنی ہی تیزی سے غائب ہوجاتے ہیں اور قاری کی پیاس اور بڑھا جاتے ہیں۔ ایک پرفریب سادگی سے بھرپور ناول۔
ہم جو یہاں کہ باسی ہیں اس شہر سے آشنا ہیں۔ ڈیزل کے دھوئیں سے دم گھٹنے سے، ناکامیوں، خوشیوں اور خوف کی تال پر کپکپانے سے ، اوروسیع سمندر کا ناگہانی سکون پانے سے اس شہر کا خیال آتا ہے۔ تنویر ہمیں سرکے بل کراچی کی گلیوں میں دھکیلتا ہوا لے جاتا ہے۔۔۔۔ ایک بس پر جو خوبصورت اور بےڈھنگ کرداروں سے بھری ہے: مارکسسی، چور، اور شاعر، ایک لڑکے اور لڑکی کی پہلی ملاقات، ایک چھوٹی کار چشم زدن میں اپنی انتہائی رفتار ستتر کلومیٹر فی گھنٹہ سے جاتے ہوئے، پرندوں والے اور جادوگروں سے، بوہری بازار کے بل کھاتے راستوں پر۔ شہر میں زندگی اور موت کی حقیقت سے آشنا اس ناول میں ایک بم کا بھی ذکر ہے، لیکن کراچی میں تشدد اور دہشت گردی پر تبصرے کے لئے اس ناول کو پڑھنے والے خود کو بہت مختلف مماس پر پائیں گے۔ اس کے غصیلے،نازاں، مخمور، دیوانے اور جنونی کردار قاری کو یادادشتوں کے ایک ایسے سفر پر لے جاتے ہیں جو جواب دینے کی بجائے نئے سوال کھڑے کردیتا ہے۔
کسی بچے کے نقطہ نظر سے لکھی گئی بہترین فکشن تحریروں کی طرح پہلی کہانی ایک لحاظ سے سب سے زیادہ پرتشدد ہے: ایک بڑے اور ظالم شہر میں زندگی کی بےبسی، اداسی، بھوک اس مختصربکھرے ہوئے اعتراف بیان میں بڑی خوبصورتی سے پیش کی گئی ہے۔۔
“میرے دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے اور اس وجہ سےہر کوئی مجھے سکول میں طوطا طوطا پکارتا تھا۔ ایک دن میں نے ایک لڑکے کو خود کو طوطا طوطا کہنے پر مارا پر میں نے اس سے کچھ کہا نہیں۔ اس کے چھوٹے بھورے بال تھے۔ میں نے اسے بالوں سے پکڑا اور پھر اس کی پٹائی کی۔ مجھے نہیں پتا کہ میں نے اسے، اس کے باپ اور بہن کو گالی دی۔ ایسا تب ہوتا ہے جب میں بہت غصے میں ہوتا ہوں۔ دوسرے لڑکوں میں سے ایک نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں نے بھورے بالوں والے لڑکے، اس کے باپ اور بہن کو گالی دی۔ اس نے کہا کہ میں نے اسے بہن چود کہا۔ یہ ایسا لفظ نہیں ہے جو میں کسی سے کہوں۔ اس کے باپ کو تو کھبی بھی نہیں۔ لیکن ہر کوئی کہتا تھا کہ میں نے یہ لفظ کہا، ہر کوئی جھوٹ نہیں بول سکتا۔”
اس ناول کے ابتدائی ردعمل میں یہ تبصرہ ہوا کہ اس میں کتنی عمدگی سے کراچی کے اردو بولنے والے متوسط طبقے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پڑھنے والا تنویر کے کرداروں کی دنیا میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک ولولہ اور بےتکلفی ہے اس میں جو پہلی سطر سے ہی پڑھنے والے کو جکڑ لیتی ہے۔ اردو ناول سے اس کے متاثر ہونے سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ “تنقید” کے ساتھ انٹرویو میں مصنف نے اردو کے عظیم مصنفوں ن۔ م ۔ راشد اور نیر مسعود کے اثرات کا حوالہ دیا ہے۔ اس صنف میں یہ قاری کو شاید ایک اور پرجوش آواز مشرف علی فاروقی کی یاد دلائے “مٹی اور گرد کے درمیان” جو پاکستان میں انگریزی ناول کو اردو کے وسیع اور زرخیز ورثے کے ساتھ جوڑتا ہے۔
ناول کے نصف تک ایک اور کہانی ہمیں غور کرنے پر مجبور کرتی ہے، غبار آلود دنیا میں ایک نوجوان کار چور– آدھا غنڈہ، آدھا تاجر– جو خطرناک ٹریفک میں اپنے شکار کی تلاش میں ہے۔ یہ ناول منشیات زدہ حقیقت پسند تحریر جو کہ ہنٹر ایس تھامپسن اور حال ہی میں ڈینس جونسن کے کام میں نظر آئی ہے کے طرز کو بڑی خوداعتمادی کے ساتھ لے کر آیا ہے۔ دیگر کہانیاں میں کسر نفسی اور چبھتے طنز کی وہ بازگشت ہے جو منٹو کا خاصہ ہے۔ اور کچھ کہانیاں اس شاندار اور عجیب وغریب خواب آور انداز کی طرز پر ہیں جس طرح لکھتے ہیں گیبریئیل گارسیا مارکیز اور ان کے جنوب ایشائی ہم پلہ جن کا ذکر ممکن نہیں۔
یہ ناول پاکستان کے بڑے انگریزی ناول نگاروں بشمول محسن حامد اور کامیلا شمسی کے کراچی پر انداز تحریر سے بہت مختلف ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناول کراچی کے غیرمتمول طبقہ کی نقطہ نظر کا نمائندہ ہے، یعنی نجی سکولوں اور باہر کے ملکوں کے دوروں سے میلوں دور کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ تک کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک کراچی کا “مستند” ناول ہے۔ لیکن ایسا کرنا کہانی کار کی یک سمتی سوچ کو ختم کرنے اور جمود کو توڑنے کی کوشش کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ مگر ان کہانیوں میں خواتین کو واضح طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ قریباً تمام آوازیں مردانہ ہیں اور عورتیں زیادہ تر اپنے محبت کرنے والوں، بھائیوں یا بیٹوں کی نظر سے دکھائی گئی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین جیتے جاگتے کردار نہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک ایسے ناول میں جو داستان جوکی آواز کو ترجیح دے اس میں عورت کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس لئے علامتا اور لغوی طور پر یہ ایک نمائندہ ناول نہیں ہے۔ اگر ہم اس کے فلسفے کو دل سے مانتے ہیں تو ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے۔
گفتگو میں تنویر ایک حقیقت پسند ہے۔ فارم اور سٹائل پر غوروغوض سے لطف اندوز ہونے والا یہ شخص اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ فکشن کا اصل مقصد لوگوں کو متوجہ کرنا اور انکے دل بہلانا ہے۔ “میرے سامعین میرے مقروض نہیں بلکہ مجھے ان کی توجہ حاصل کرنی پڑتی ہے۔” تنویر کا وسیع اور ہمہ جہت ادبی ورثہ اسے پاکستانی انگریزی مصنفوں کی موجودہ نسل پر فوقیت دیتا ہے۔ ایک دوست نے ایک دفعہ بتایا کہ تنویر کی اپنی زبان مکمل طور پر “دو زبانی” ہے۔ تنویر کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی تحریر کے لئے اپنی نصابی تعلیم کو بھلانے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن ناول بڑے فنکارانہ انداز میں اس تجسس کی عکاسی کرتا ہے جو اردو کے لکھے لفظ اور اس کے ترجمے میں استعمال ہوئے ہیں۔ موت ایک حتمی نقطہ اختتام ہے، کی طرح، ہیبت ناک، بےسروپا اور ناقابل تشریح کو عزت اور احترام دیتے ہوئے۔
تنویر ادب کے ساتھ اپنے تعارف کا سہرا اردو نیوز ڈائجسٹ کی آسیبی اور جناتی کہانوں کو دیتا ہے جو مافوق الفطرت، الہامی نظریے اور بڑے یقین اور وفاداری کے ساتھ حقیقت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ “مجھے ان کی جو بات پسند ہے وہ یہ کہ ان میں سے بہت سی کہانیوں کا کوئی انجام نہیں ہوتا تھا۔” ایک بےاعتبار دنیا کی مصیبت میں مبتلا ” سکیٹر (بکھار)” ایک شہر اور اس کی دو کروڑ تئیس لاکھ کہانیوں کے بارے میں ہے جو آواز کی متلاشی ہیں۔ تنویر سب کے بارے میں نہیں لکھتا، لیکن جب وہ لکھتا ہے تو حق ادا کردیتا ہے۔
تنقید: لوگ کس چیز کے بارے میں زیادہ متجسس ہوتے ہیں جب وہ یہ کتاب پڑھتے ہیں یا آپ سے ذاتی ملاقات کرتے ہیں؟
———————————————————————————————————————————
یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔
———————————————————————————————————————————
بلال تنویر: میرے خیال میں لوگ زیادہ تر کراچی کے بارے میں سوالات کے لئے متجسس ہوتے ہیں۔ میں نے کراچی کے بارے میں لکھنے کا انتخاب کیوں کیا، اور مجھے کس چیز نے یہ لکھنے پر آمادہ کیا۔ میرے خیال میں وجوہات ذاتی ہیں۔ میرے خیال میں تمام بڑے شہکار ایک حقیقی گردوپیش اور اس کے مسلسل تعامل کے ذریعے سرانجام پاتے ہیں۔ ۔ یہ میرے لاشعور کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور میں کراچی کا اہم حصہ ہوں۔ اور یہی ہے وہ محرک جس ک وجہ سے میں نے اس کے بارے میں لکھا۔
اس کتاب کی ساخت کے بارے میں حیران کن حد تک عدم دلچسپی تھی۔ کیونکہ اس کی ساخت غیر معمولی تھی میرے خیال میں اس لئے لوگ کہ اس خوف سے یا اس بارے میں بےیقینی کی وجہ سے کہ اس کا جواب کیسے دوں اور وہ اس کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کتاب کی ساخت کے بارے میں سوال بنیادی ہے۔
تنقید: آپ کی کتاب ترغیب دیتی ہے کہ اسے حقیقی معنوں میں دیکھا جائے۔ یہ لوگوں کو دنیا کی ایک جھلک دکھاتی ہے اور پھر چھین لیتی ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
بلال تنویر: جس لمحے میں ہم زندہ ہیں وہ ساکت ہے۔ اس مستحکم حقیقت سے اپنی روز مرہ زندگی میں ہم انکار کرتے ہیں۔ یہ ایک مستقل تبدیل ہوتی ہوئی حقیقت ہے۔ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، دو سال بعد یہ ایسی نہیں ہوگی۔ اور اس کا ایک واضح اثر ہوتا ہے اس کہانی پر جو آپ لکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی کچھ حدود بھی ہیں۔ جو بھی وجہ ہو، ہمارے دماغ کہانی کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں آپ کو کہوں ” میں نے ایک کنگھا استعمال کرنا شروع کیا اور میں گنجا ہوگیا” اب دلائل کے لحاظ سے ان دونوں اشیا کے درمیان کوئی باہمی تعلق نہیں۔ لیکن کیونکہ میں یہ آپ کو ایک کہانی کےطور پر بتا رہا ہوں، آپ ایک اتفاقیہ تعلق بنالیتے ہیں۔ یہ کتاب شعوری طور پر بتاتی ہے کہ یہ دنیا روایتی اتفاق کی کہانیوں کے لئے بہت پیچیدہ ہے۔
تاہم یہ کتاب اس چیز کا ادراک کرتی ہے کہ چیزوں کو داستان کی لڑی میں پروئے بنا سمجھنا ممکن نہیں، تو اس طرح جزو اور کل میں ایک تناؤ موجود رہتا ہے۔
تنقید: اپنے لکھنے کے عمل کے بارے میں کچھ بتائیں؟
بلال تنویر: جب کوئی ڈیڈ لائن ہو تو بہت آسان ہوجاتا ہے۔ میں صرف وہ کرتا ہوں جو مجھے کرنا ہوتا ہے اور میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ دوسری صورت میں میں لکھنے سے بچنے کیلئے بہت کچھ کرتا ہوں۔ میں وہ چیزیں پڑھتا ہوں جو شاید مجھے نہیں پڑھنی چاہئیں۔ کتابیں جن کو میری تحریروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یقیناً وہ عام طور سے ہٹ کر زیادہ ترغیب دینے والی ہوتی ہیں۔ ڈیڈلائن چیزوں کو حیران کن طور پر شفاف کردیتی ہے۔ یہ کتاب مختلف ٹکڑوں میں لکھی گئی۔ اس لئے کتاب کا ڈھانچہ اس عمل کا عکاس ہے۔ میں کبھی کبھار لکھتا تھا۔ میں نے اس پر غوروغوض (مختصر اور طویل گہرے مراقبے) کے لئے بڑی جانفشانی کی ہے۔ خاص طور پرآخری کہانی لکھنے میں مجھے بہت وقت لگا۔ میں نے اسے 2008 کے موسم گرما میں لکھنا شروع کیا۔ 2009 میں اس کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اور 2010 میں تیسری مرتبہ اپنی تحقیق کے لئے اس کا جائزہ لیا۔ کیونکہ اس کتاب کو اکٹھا کرنا تھا اور اس کتاب کی ساخت کیلئے تائیدی دلائل دینا تھے۔
تنقید: آپ نے ان مصنفین کی ایک فہرست دی ہے، جن کے اثرات اس ناول پر ہیں خاص طور پر۔۔۔
بلال تنویر: یہ ناول بہت سے مصنفوں سے گفتگو کرتا ہے۔ اور میں کہانی بہ کہانی اس کا ذکر کرسکتا ہوں۔ لیکن یقیناً اس میں ڈیوڈ فوسٹر ویلیس، ڈینس جانسن۔۔۔ نیر مسعود ہیں۔ اس میں انتظار حسین اور ن م راشد ہیں۔ ایک کہانی اردو جنگ میگزین کے “ناقابل فراموش” جس کا مطلب “نہ بھولنے والا ہے” کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ ایسے لوگ لکھتے ہیں جو مافوق الفطرت واقعات کو دہراتے ہیں۔ ایسے واقعات جو ان کے ساتھ یا ان کے کسی عزیز کے ساتھ پیش آئے ہوں۔ اس لیے آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی کو جن کو تجربہ ہوتاہے، کسی کے رشتے دار پر بھوت کا سایہ ہوتا ہے۔ اور مجھے ان میں یہ بات بہت پسند ہے کہ ان کہانیوں کو مذہبی لگاؤ سے پڑھاجاتا ہےـ بہت سی کہانیوں کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ اور میرے خیال میں آپ اس کو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ میرا ادب سے تعارف ایسی کہانیاں جن کا کوئی انجام نہیں ہوتا ان کے ساتھ دلچسپی کے باعث بنا، اور یہ سب ہمیشہ آپ کے دماغ میں ہوتا ہے۔
بلال تنویر ایک لکھاری اور مترجم ہیں اور تخلیقی لکھارت سکھاتے ہیں۔ دا سکیٹر ہیئراز ٹو گریٹ (یہاں بکھار بہت زیادہ ہے) ان کی پہلی کتاب ہے۔
ارم حیدر لمز میں سیاسیات پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے پہلے بشری زیدی کے قلمی نام سے بھی لکھا ہے۔
[…] نگار بلال تنویر اپنی نئی کتاب کے بارے میں ارم حیدر سے گفتگو کرتے ہوئے ہیں کہ “چیزوں کو داستان کی لڑی میں پروئے […]