- فوٹوگرافر: اسد اللہ طاہر
پاکستان کی عوامی زندگی کے عمومی بیانات میں مشتعل پر تشدد ہجوم کا تصور ہما وقت موجودہوتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں توہینِ رسالت کے خلاف احتجاج، فرقہ وارانہ حملے، فسادات، سرکاری اور عوامی ملکیت کا نقصان، اور مسلم اور غیر مسلم اقلیتوں کے ہتھیا کے واقعات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں ویڈیو فلم کے خلاف تحریک، ۲۰۱۳ء میں لاہور کے بادامی باغ میں رہائش پذیر مسیحی برادری کے گھر وں پر حملہ، اور اس سال عاشورہ کے موقع پر راولپنڈی میں ایک مسجد اور کئی دکانیں جلا دیا جانا، یہ سب پاکستان میں ہر جا حاضر ہجوم کے سیاسی اظہار کی چند مثالیں ہیں۔
* * *
ہجومی تشدد اور فسادات کی غیر معقولیت پر سوچ وچار یا اس میں شامل لوگوں کو پاگل قرار دینا لاحاصل ہے۔ عوامی احتجاج ان نظامی اور تاریخی عناصر سے امڈتے ہیں جو ملک کی روزمرہ کی نسبتی زندگی کا نتیجہ ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستانی پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور میں تاجروں اور موٹر میکینکوں نے ایک بھوک ہڑتالی کیمپ لگا رکھا ہے اور یہ روز فیروز پور روڈ پر احتجاج بھی کرتے ہیں۔ انکا احتجاج سرکار کے اس منصوبے کے خلاف ہے جس میں سرکار ٹریفک کے رش کو کم کرنے کے لیے چونگی امر سدھو کے نزدیک کمرشل زمینوں پر دو فلائی اور پل بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مظاہرین کے مطابق اس منصوبے سے علاقے کے چھ ہزار گھرانے متاثر ہوں گے۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جنہیں رہائشی علاقہ چھوڑنا پڑے گا اور جن کی دکانیں مین روڈ پر ہیں انکا راستہ بند ہونے کی وجہ سے زرائع آمدن ختم ہو جائے گا۔ شہر کے دوسرے کونے میں بادامی باغ اور آزادی چوک میں بھی بڑے پیمانے پر ہونے والے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے مقامی اخبارات کا سرسری جائزہ لینے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ مظاہرہ منفرد یا انوکھے نہیں ہیں۔ ملک کے کئی حصوں میں کئی انواع و اقسام کے مسائل پر مظاہرے، ہڑتالیں، دھرنے اوراحتجاجی کیمپ لگے ہوئے ہیں۔
تاجر برادری کا زمین سے بیدخلی کے خلاف مظاہرہ ہو یا تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر کلرکوں کو احتجاج یا پھر کسانوں کا کسان دشمن زرعی پالیسی کے خلاف سڑک پر دھرنا ہو، یہ سب پاکستان میں عوامی مظاہروں کے کلچر اور شہری زندگی کا اظہارہیں۔ برازیل اور بھارت جیسے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عوامی احتجاج میں درمیان اور کم از درمیان کمائی والے حلقوں کی شمولیت دوسروں کی نسبتاََ بڑھ گئی ہے۔ یہ نا صرف یونین سازی میں کمی اور محنت کش طبقہ کی گروہ بندی کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ اس میں جنٹریفیکیشن اور بدلتی ہوئی علاقائی شکل جیسے عناصر بھی شامل ہیں۔ درمیان طبقہ کی شہری زندگی، جو کہ تاجر تنظیوں اور شہری مضافات کے کلب کی شکل میں نظر آتی ہے، اب پروان چڑھنا شروع ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں مزدوروں کے اتحاد میں نئی رکاوٹیں کھڑی ہو چکی ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں انجمن سازی کی آزادیِ کی داستان سہانی نہیں ،لوگوں کا روز مرہ کے شہری عمل کے لیے مظاہروں کو ترجیح دینا قدرے حیران کن ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مظاہرے کسی عمل یا واقع کے ردِعمل میں یا بے ساختہ ھیجان کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے عوامی مظاہروں اور تحاریک کے موضوعپر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے۔ زیادہ تر صحافیوں اور دانشگو منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے پر تشدد مذہبی ہجوم کا ہی نقشہ کھینچتے ہیں۔
———————————————————————————————————————————
یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کے بارے میں لکھی گئی زیاد ہ تر تحریروں میں عوامی مظاہروں کی دوجداگانہ تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف ذکر ہوتا ہے نفرت اگلتی مذہبی جنونیت کاجسے میڈیاء کیوریج کے لائق سمجھتا ہے۔ تو دوسری طرف ان مظاہروں کی روداد ہوتی ہے جو محض اشرافیہ کی روز مرہ آمدو رفت میں رکاوٹ بنتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اخباروں کے شہری صفحوں پر ایک دوکالمو ں کی جگہ پاتے ہیں۔
اس قسم کے عوامی مظاہروں ، یا ’غیر مہذب عوام‘ پر کوئی تحقیقی کام نہیں ملتا۔ اگر ہم توجہ دیں تو ان وکلاء ، تاجران، اور سرکاری اہلکاروں کے بے ضرر مظاہروں کا مذہبی تشدد کے بے ساختہ ھیجان کے مابین ایک تعلق نظر آتا ہے۔
ستمبر ۲۰۱۲ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عشقِ رسول کا جشن منانے کے لیے عام چھٹی کا اعلان کیا تاکہ امریکہ میں توہین آمیز ویڈیو کے خلاف احتجاجی آواز بلند کی جا سکے۔ پھر یو ٹیوب، جہاں اس ویڈیو کو چلایا گیا تھا،پر پابندی لگا دی گئی۔ خیال یہ تھا کہ لوگ امن پسندی سے فلم کے خلاف احتجاج کر کے اپنے مجروع احساسات کا اظہار کر سکیں گے۔ لیکن یہ جلسے اور مظاہرے جلد ہی تشدد کی طرف پلٹ گئے اور انتہائی دائیں بازوکے اسلامی گروہوں نے کچھ سینما گھروں کو لوٹا ، شرکاء نے کئی دکانیں جلا دیں اور بینک تک لوٹ لیے۔
اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی میں لگے تشہیری بینروں سے پتہ لگتا ہے کہ ۲۰۱۲ ء کے ان مظاہروں کو منظم کرنے میں تاجر، علماء، وکلاء، فلاحی تنظیمیں ، صحافی، اور طلبہ یعنی پاکستان کی شہری سول سوسائٹی کے تمام دھڑے شامل تھے۔
باضابطہ سیاسی عمل اور سماج کے درمیان فضا میں ہی یہ تشدد اور رجعتی سیاسی رویے معلق ہیں۔ اگر ہم ہجومی فساد اور روز مرہ کی سیاسی و سماجی نسبتی زندگی کا جائزہ لیں تو سمجھ آتا ہے کہ فسادی ہجوم کوعمومی رویوں سے منحرف سمجھنا درست نہیں۔ پچھلے سال راولپنڈی میں عاشورہ جلسہ پر ہونے والے حملوں کی مثال لے لیجیے۔ شیعہ مسلمانوں کے اس مذہبی تہوار پر فسادات کے باعث ۸ افراد ہلاک ہو گئے ، کئی دکانیں اور ایک مسجد بھی جلا دی گئیں۔ جواب میں تاجروں نے کٹر سنی انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر تشدد سے ’’بچاؤ‘‘ کی کوششیں شروع کردیں۔ اس میں دیگر انجمن ساز گروہ،جیسے کے وکلاء نے بھی شرکت کی۔ اسی طرح پچھلے سال جب لاہور میں مسیحی برادری کے محلے بادامی باغ میں حملہ ہوا اور آتش زنی کی گئی تو اڑتی اڑتی خبر ملی کہ انجمنِ مالکان سٹیل میلز نے ایک نیا گودام بنوانے کی نیت سے مسیحی کالونی کا صفایا کروانے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت بلوا کروایا۔
اگرچہ اس موضوع پر باقاعدہ تجزیے کی ضرورت ہے، لیکن یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان میں یکایک ابھرنے والی تحاریک کو انجمن سازی اور نسبتی زنگی کے تناظر میں ہی جانچا جا سکتا ہے۔ جس انداز میں مذہبی گروہ مدرسہ کے طالبات کو توھین رسالت کے نام پر سڑکوں پر لے آتے ہیں، یا جس طرح تاجران مسجد جانے والوں کو ٹیکس بڑھنے کے خلاف ہڑتال کرنے ہر راضی کر لیتے ہیں، ان سے عوامی و سیاسی فضا پر ایک خاص قسم کی اجارہ داری قائم ہوتی نظر آتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروپوں کے خلاف ہونے والے روزمرہ تشدد کے واقعات اس ملک کی سیاسی معیشت کے ارتقاء سے جڑی ہے۔ یہ نا صرف اسلام اور تجارت کے درمیان ایک خاص قسم کے سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں تشکیل ہونے والے ثقافتی روابط سے جڑی ہے ، بلکہ اس اجارادی کے قیام میں ریاستی سرپرستی پر محنت کش طبقہ کی سیاست پر ممانعت کا بھی دخل ہے۔
اب سیاسی حکمتِ عملی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ کسی سیاسی فکروعمل کو تشکیل دینے کے لیے دو باتیں غور طلب ہیں۔ اول یہ کہ اصولی طور پر تومختلف نظریات کی حامل سیاسی پارٹیاں اور ضاکارانہ تنظیمیں عوامی جگہوں کو ترتیب دینے کا کام کرتی ہیں اور فضا کی تشکیل و ترتیب وہاں بسنے والے لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوئم یہ کہ حقائق اور اصولوں میں اب مطابقت باقی نہیں، کیونکہ اگرچہ ہمارے سیاسی سٹیج پر کئیکردار اور کئی کہانیاں ہیں لیکن ان مظاہروں کی بنیاد میں ایک ہی نظریاتی مادہ ملتا ہے۔
چناچہ سیاسی حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ ہم نئے سرے سے متحد ہو کر اس ملک میں اکثر پائی جانے والی ان تنزلی تحاریک کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم بائیں بازو کا سیاسی قاعدہ پڑھتے ہوئے اندھوں کی طرح حقائق کی دیوار سے سر پٹخاتے رہیں۔ بلکہ اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ظلم و ستم اور استحصالی قوتوں نے کیسے سرمایہ دارنہ نظام کو تشکیل کیاہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی کارخانوں اور صنعتوں کے مزدور جو محنت کش طبقاتی جدوجہد کا اہم حصہ رہے ہیں اب تنظیمی اور نسبتی عوام کا محض ایک نمونہ ہیں۔ کارآمد سیاست کی تشکیل کے لیے دیگر گروپوں ، جیسے کہ پھیری والے، کچی آبادیوں کے مکین، اور دیہاڑی مزدوروں کو بھی اپنی جدوجہد کا حصہ بنانا پڑے گا ۔
یقیناًایسا کرنے میں بہت دشواریاں ہیں۔ پاکستانی ریاست بھی اس تنظیمی و نسبتی میدان میں ایک نظریہ کو فروغ دیتی ہے اور ہجوم اور دیگر کرداروں کے روز مرہ تشدد اورفسادات کے لیے سازگارحالات تشکیل بھی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سماج سے جڑے ایک متبادل سیاسی فکروعمل کی اشد ضرورت ہے۔
عمیر جاوید فری لانس کالم نویس ہیں۔
۔
[…] کا نشانہ بناتے ہیں اور عمیر جاوید اس غیرمعقولیت پر سوال اٹھاتے ہیں جسے ہجوم سے منصوب کیا جاتا ہے۔ ایویلن پی نے یونانی نیو […]