مئی 2012 میں یونان کے قومی انتخابات کے بعد نئی ناٹزی گولڈن ڈان پارٹی کے انتخابی ابھار کو مغربی میڈیا کے تمام حصوں نے ایک ایسے رجحان کے طور پر دکھایا ہے جو معاشی بحران کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لبرل جمہوریت سے مایوس ہونے کی بنا پر یونانی عوام اب زیادہ رجعتی متبادل کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ اتنی زیادہ پھیل گئی ہے۔اس ‘‘ بحران’’ سے پہلے کی نصف صدی کی یونانی تاریخ، یونانی سیاست میں مغربی قوتوں کی مداخلت، وہ پالیسیاں جن کے سبب یونانی معاشرے میں، جہاں نیم فوجی گروہوں کو بیرونی قوتوں کے خلاف اختلاف رائے ختم کرنے کا سیاسی اختیار دیا گیا تھا ، نظریاتی خلا پیدا ہوا ہے، یونانی کمیونسٹوں کے خاتمے کے لئے سرد جنگ کی مہم کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟؟ گولڈن ڈان کو کبھی بھی مغربی سامعین کے حوالے سے نہیں دیکھا گیا، اس کی بجائے یونان کا موازنہ ویمار ریپبلک سے کیا جاتا ہے، یہ ایک چالاک تدبیر ہے جو کہ مغربی آزاد خیال اپنی حکومت کی ان سازشوں سے اپنے آپ کو دور رکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں جن کی وجہ سے یونان آج اس المیے میں ہے۔
اس پارٹی کا ابھار اب کسی کے لئے حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہئیے، لیکن اسے اندرونی یونانی مظہر کے طور پہ بھی نہیں دیکھا جانا چاہئیے۔ اس بات کا ثبوت بہت سے یونانی کارکنان اور اکادمیہ دونوں دیتے ہیں کہ گولڈن ڈان کی جڑیں فوجی آمریت اور اس سے وابستہ نیم ریاستی قوتوں میں ہیں جو کہ یونان میں سرد جنگ کی خارجہ پالیسی کی پیداوار تھیں۔‘‘گولڈن ڈان’’ کے باقاعدہ طور پہ پارٹی ہونے سے پہلے، ان کے پیشروؤں نے فوج کے رجعت پسند عناصر پر قبضہ کرلیا، جن کا امریکہ نے خانہ جنگی میں بائیں بازو کی شکست کے بعد بار ہا فوجی بغاوتوں میں ساتھ دیا، اور ان نیم فوجیوں (وہ لوگ جنہوں نے ناٹزی قابضین کا ساتھ دیا، وہ لوگ جن کو برطانیہ نے اس وقت دوبار ہ اسلحے سے لیس کیا جب وہ یونان کو کمیونیزم سے ‘‘بچا’’ رہے تھے۔ ) کو باغی اور تمام بائیں بازو والوں بشمول آزاد خیال بائیں بازو والوں کو نظریاتی طور پہ دبانے کیلئے تربیت دی۔ اس کا نتیجہ تمام بائیں بازو والوں، ان کے خاندان اور حمایتیوں کو کئی دہایوں کے لئے جلا وطنی، تشدد، قتل اور سیاسی انتقام اور بیگار کیمپوں کی صورت میں چکانا پڑا۔ نینی پینورجیا اپنی کتاب خطرناک شہری میں 67 کے فوجی ابھار کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
‘‘21 اپریل 1967 کو، بعید دائیں بازو کے فوجی کرنلوں کےایک گروہ، جن میں سے کچھ نے امریکہ کے جنگی کالج میں تربیت لی تھی، جن میں سے کچھ نے ٹاگماٹا ایسفیلئیس میں حصہ لیا تھا، جن میں سے کچھ “X” کے اراکین تھے اور جن میں سے کچھ میکرونیسوس اور یوروس میں سے متشدد بھی رہے تھے، نے سیاسی عدم استحکام اور وقتی تناو کا بہانہ بناتے ہوئے سرکار پر قبضہ کرکے آمریت نافذ کردی۔ جیورجیس پاپاڈوپولس نیم فوجی تنظیم IDEA(IerósDesmosEllênōnAxiōmatikôn، ‘‘ یونانی افسروں کا مقدس رشتہ)کے رکن تھے۔ نیکولس میکیریزوس اور سٹائلینوس پیٹاکوس ان کے پہلو نشین تھے۔ اس عمل میں بہت سوں نے حصہ لیا تھا لیکن آمریت کے پہلے مہینوں میں یہی تین چہرے عوام کے سامنے آئے۔ 1970 میں جیمز بیکٹ نے نظریہ ٹرومین اور جونٹا کے درمیان تب رابطہ کرایا جب موخرذکر عروج پر تھا، ‘‘ بیس سال (نظریہ کے بعد) امریکہ کے حصے میں سلطنت اور یونان کے مقدر میں ایک فوجی آمریت آئے گی۔ یونانی جو آزاد لوگ تھے،وہ ایک اقلیت کے غلام ہوجاتے ہیں جسے امریکہ نے مسلح کیا اور امریکہ کی طرف سے بیرونی دباؤبھی رہتا ہے (1970: 12)۔ ’’
پاپاڈوپولس، جو کہ ایک کرنل تھا، نے مائیکلیکوس، گولڈن ڈان کے صدرِ، کو پارٹی بنانے کے لئے ایک ہدایتی خط لکھا جب وہ 80 کی دہائی میں جیل میں ملے تھے۔ پچھلے تین سالوں میں گولڈن ڈان کے انتخابی ابھار سے پہلے، یہ ایک دہشت گرد نیم فوجی گروہ تھا جو ان تھیٹروں پہ بمباری کیا کرتے تھے جو سوویت فلمیں دیکھایا کرتے تھے، بائیں بازو والوں اور البانئین مہاجرین کو قتل کرتے، 17N کے شہری بائیں بازو والے گوریلا حمایتیوں، جو کہ یونان میں 20 صدی کے وسط سے یونان میں امریکی، برطانوی اور ترک جنگی جرائم کا حساب مانگنے والا مارکسی گوریلا گروہ تھا، کو دھمکاتے تھے۔
بائیں بازو کے لوگوں کو بیسویں صدی کے یونان اور یونانی قومی دھارے میں “مغربی یورپین” تصور کے ادخال کے بارے بہت کم علم ہے۔ عثمانی سلطنت کی ایک نسلی مذہبی اقلیت سے لے کر مغربی طاقتوں کے محافظین تک یونانیوں کو مشرق بمقابلہ مغرب، “جدید” بمقابلہ “قدیم” کے جامد مخمصے سے اس وقت روچار ہونا پڑا جب مغرب نے ان سے ان کے عظیم الشان آباؤاجداد کو دوبارہ زندہ کرنے کا کہا جس کی وجہ سے انہیں لازمی طور پر اپنی ثقافت میں سے مشرقی باقیات سے جان چھڑانی پڑی۔ 1946-49 کی سرد جنگ کے بعد ریاست کی طرف سے اختیار کیا جانے والا قوت کا حیاتیاتی سیاسی طرز حکومت اور طریقہ کار (جو وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے میٹاسیکس طرز حکومت ختم ہوتا ہے) قومی روایات کو اس قسم کی منتقمانہ سوچ میں تبدیل کرنے کے لئے تھا جہاں یونانی تہذیب کی خالصیت اور ایجاد کردہ (یا تصور کردہ) نامیاتی اور خطی ورثے کو یورپی اور امریکی ڈھال تلے محفوظ کیا جانا تھا۔ کچھ سیاسی مباحث میں یہ نئی یونانی تصویر کشی اصل میں استنبول کی آزادی کیلئے دیر پاء امنگ اور جواز بن گئی (یونانی سیاست میں رسہ کشی کا وہ مقابلہ جو 20 صدی کے دوران جاری رہا اور یونانی جنٹا حکومت کی سائپرس کو ضم کرنے کی کوشش پہ ختم ہوا، اس کا جواب شمالی سائپرس میں ترک حکومتی قبضے نے دیا)؛ دیگر مباحث میں، مستقل کمیونسٹ ‘‘وبا’’ اور یونانی قدامت پرست اقدارپر اس کے حملے کے خطرے سے یونانی تہذیب کو بچانے کی ضرورت ہے۔ 80 سے پہلے کے جدید یونان کی تاریخ نسلی اختلاف اور نسل کشی، اناطولیہ، کاکاسس، شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا میں یونانی آبادی کی بےدخلی؛ ایک بعد از نوآبادیاتی ریاست کا سیاسی عدم استحکام جو بار بار فوجی بغاوتوں کا شکار رہی ہو (ایمفائلیس سے پہلے اور بعد)، اور بیشتر صدی برطانیہ کی جانب سے تھوپے گئے شاہی نظام، ان کے نمائندہ ساتھی، اور آزاد خیالوں کے درمیان پراکسی ڈانواںڈول جمہوری ریاست کے میدان میں جاری رہنے والی کوششوں پہ مبنی ہے۔
اس پس منظر میں ہم گولڈن ڈان کی حالیہ تاریخ میں جڑیں تلاش کرسکتے ہیں۔ اس پارٹی کی تاریخ جیورجس پاپاڈوپولس، سابقہ فوجی آمر تک جاتی ہے، “حب وطن کی بحالی کیلئے اشتراک” کا نظریہ جو کہ نیکولس مائیکلولائیکس، موجودہ پارٹی صدر، کو دیا گیا گیا تھا، جب وہ 1985 میں جیل میں ملے تھے؛ ان کی اس ملاقات نے گولڈن ڈان کے اسی سال کے پہلے شمارے کی بنیاد رکھی۔ پارٹی اب باقاعدگی سے سرعام مندرجہ بالا فوجی آمریت کو اپنی ریلیوں میں سچے ‘‘محافظین’’ اور جدید یونانی ریاست کے فاتح کے طور پہ پیش کرتی ہے۔ ایک لحاظ سے تو یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ سات سال تک پاپاڈوپولس کی حکومت حقیقتا ناٹزی، برطانوی اور امریکی اشتراک کی توسیع تھی (محور اور اتحادی دونوں فریقوں نے اپنی قوت عوامی قومی آزاد خیال فرنٹ کے خلاف لڑنے میں اکٹھی کی جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد متواتر بیرونی غاصبین کے خلاف دفاع کیا)، اور اسے عام طور پر امریکی حکومت کی کٹھ پتلی کہا جاتا ہے۔ “X” اور TagmataAspháleias (سیکیورٹی بٹالین) دونوں نیم فوجی گروہوں کے اراکین ( جنہوں نے پہلے نازیوں کا ساتھ دیا اور پھر برطانوی جنرل سکوبی کی رہنمائی میں دوبارہ سے اسلحے اور امداد سے لیس ہوئے) نے سفید خوف کے دور میں عوام پہ حملے، تشدد، ریپ اور قتل کئے جس نے بعد ازاں خانہ جنگی کو شہہ دی تاکہ کمیونسٹوں اور مشہور نظریات کو عوامی پہنچ سے الگ کیا جائے۔ ان کے حامیوں کو ملنے والی کسی بھی قسم کی حمایت کا قومی فوج اور اس کے مختلف نیم فوجی دستوں جن کے لئے X اور ٹاگمیٹا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، کی جانب سے بھرپور جواب دیا جاتا تھا۔ اس طاری کئے جانے والے خوف کا نتیجہ دہائیوں پر محیط بائیں بازو والوں کے قتل عام اور کسی بھی قسم کے حمایتی کو دبانے کے لئے میکرونیسوس، یاروس اور آئی سٹریٹس کے جزیروں میں اندرونی جلا وطنی، جہاں کمیونیزم کو انسان سے نکالنے کے لئے ریاست کی جانب سے اجازت یافتہ تشدد اور ذہنی ‘‘از سر نو تعمیر’’ کی جاتی تھی، کی صورت میں نکلا۔ یہ سب کچھ قدرتی طور پہ سرد جنگ کے دوران برطانیہ اور امریکہ کے زیر سایہ تھا (نظریہ ٹرومین، مارشل منصوبہ وغیرہ) لیکن اس کی صف آرائی 20 صدی میں کی گئی، اس نظام کو 70 کی دہائی کے وسط میں جنٹا کے زوال تک “بائیں بازو کے صفایا” کیلئے استعمال کیا گیا۔ یونان میں قوتوں کے تعلقات اختلال آخر میں پاپاڈاپولس کے 1967 فوجی بغاوت کی شکل میں نقطہ اختتام کو پہنچا، جو پھر طنزوالم کے سات سال جاری رہا(طنزوالم اس لئے کہ اس دور حکومت کی بیوقوفیوں اور اس کی بیزار جاہلانہ زبان کے خلاف بڑے پیمانے پر بے چینی پائی جاتی تھی)۔یہ بات اب عام علم میں ہے، جیسا کہ نینی پینورجیا نے اپنی کتاب میں ضمنی طور پر بیان کیا ہے کہ ڈیمیٹریوس آئیونائڈز، وہ جنرل جس نے 1973 میں کرنل کی حکوقت کا تختہ الٹا تھا اور آمریت کا سب سے وحشیانہ دور لے کے آیا تھا، میکرونسس میں متشدد تھا۔ اس سے زیادہ پرتجسس بات یہ ہے کہ اس حکومت میں دیگر کرداروں کے آباء جنگ کے دوران T[agmata] A[sphaleias] یا “X” میں اپنی خدمات پیش کر چکے تھے۔
جنتا کے زوال کے بعد، بہت سے لوگ جنہوں نے اس حکومت میں حصہ لیا تھا، ملٹری میں واپس بھرتی ہو گئے، کچھ کو ریاستی اداروں میں سرکاری ملازمتیں دی گئیں، اور بہت سے عوام کی کسی بھی ملامت کے بغیر نکل گئے۔ یہ وہ ورثہ تھا جو یونانی چھوڑ کے گئے اور عوام کو اس کے ساتھ رہنا تھا۔اذیت رساں، آبروریز، جنگی قوم پرست، اور بیرونی امداد سے فائدی اٹھانے والے۔ کیتھرائن سٹیفاٹوس گولڈن ڈان کے حمایتیوں کی جانب سے قوم پرست رجعت پسندی کے بارے اپنی کتاب دماغ اور جسم میں قیاس کرتی ہیں، ‘‘ جابرانہ حکومت کے دور میں یونانی خانہ جنگی کے دوران صرف مخالف سیاسی خواتین ہی جنسی اور علامتی تشدد کا واحد شکار نہ تھے۔’’
لڑائی کے خصوصا ابتداء (1946-47) اور (1949) کے بعد کے ادوار میں عام آبادی نے اس کا زیادہ بار اٹھایا۔ زیادہ تر واقعات میں، عام خواتین کا جمہوری فوج یا کمیونسٹ پارٹی سے بالواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی ان کو شمولیت سے باز رکھنے کیلئے ان کو شدید خوف اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سفید خوف (1945-47) اور سرد جنگ کے پہلے درجے (1946-47) کے عرصے کے دوران، خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، ان سے زبردستی جسم فروشی کرائی گئی، ان کو قطع و برید کیا گیا، اور ان کو عوامی مقامات یا ان کے رشتہ داروں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان کے سر گنجے کر دیے گئے، اور ان کو عریاں کیا گیا۔ یہ خوف جاری رہا اور 1949 میں شدت پکڑ گیا۔ جیسا کہ حالیہ تحقیق، محفوظ مواد اور میرے کئے گئے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے، خواتین، جن کا بنیادی طور پہ شمالی یونان سے تعلق تھا، نے جنسی زیادتی، جلا وطنی، قید اور پھانسی کے خوف سے نہ کہ نظریاتی عقائد کی بنا پر جمہوری پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ زبانی گواہیوں میں، خصوصا 1945-1947 کے دور میں جنسی زیادتی دائیں بازو کے نیم فوجی دستوں کی جانب سے ایک عام عمل کے طور پہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ تاہم سرکاری مندرجات میں جنسی زیادتیوں کے کوئی اصل اعدادوشمار موجود نہیں۔ یونانی جمہوری فوج (DSE) کی جانب سے اقوام متحدہ کو مارچ 1947 میں جمع کرائے جانے والی یاداشت( 1987) کے مطابق، 16 تحصیلوں میں جنسی زیادتی کے 211 واقعات درج کئے گئے تھے۔ تمام علاقوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مثال کے طور پہ ایتھنز اور جزیرے اور یونان کا اصل علاقہ اس میں شامل نہ تھے۔ اس میں کوئی تاریخی ثبوت بھی نہیں تھے: یہ رپورٹ ہوئے کیس مارچ 1947تک ہونے والی زیادتیوں کے تھے (یاداشت 1987:395)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادتیوں کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے، کیونکہ شرم اور غیرت کے اصول بہت گہرے تھے اور بہت سے واقعات کو روپورٹ نہیں کیا گیا۔ 21 جب عوامی اختلافات میں شدت آئی، جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت، تاریخی ریکارڈ 1945 میں لونینہ میں ایک کیمپ میں 300 نوجوان پناہ گزین خواتین کی اجتمائی زیادتی کی نشان دہی کرتا ہے؛ بعدازاں جمہوری فوج نے ان خواتین کو بھرتی سے روکنے کے لئے زبردستی جسم فروشی کرنے کی طرف دھکیلا۔
جیسا کہ ایفروڈائٹ میوروڈی پینٹے لیسکیو جو میکرونیسس اور ٹرائکری میں سیاسی پناء گزین تھیں، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں:
‘‘جس بات سے ہمیں سب سے زیادہ خوف آتا تھا، وہ یہ ہے کہ جب وہ ہمیں( خیموں سے) باہر رات کو لے کے جاتے تھے۔ ہمیں رات کو اس طرح باہر لے جانے کی وجہ معلوم نہ تھی اور ہم کانپ رہے تھے۔ ہمارے علم میں صرف یہ تھا کہ وہ نوجوان خواتین کو چن رہے ہیں اور کسی خطرناک شے کا انجانا خوف ہمیں پریشان کر رہا تھا۔”
اب ہم 20 صدی کے اسی پیوند کی صدائیں، متحدہ یونان کے خواب کے بارے میں قوم پرست نعرے سن رہے ہیں۔ مائیکا لوکوس کے ‘‘استنبول واپس لو’’ کے نعروں سے لے کر بائیں بازو کی خواتین سیاست دانوں کے خلاف جسمانی اور جنسی زیادتیاں، تارکین وطن پر ان گنت حملوں تک۔۔۔۔ ہماری واحد امید یورپی یونین کے بھنور، اس کی تصنع تہذیب اور اس کے نوآبادیاتی سرمایہ داری کے چنگل سے یونان کی مکمل علیحدگی ہے۔ ہمیں اس تعفن زدہ آزاد خیال سوچ اور ان کے پرامن بقائے باہمی کو پورے زور سے حتمی طور پر رد کرنا ہوگا۔
ایویلین کوئینز، نیویارک سے تعلق رکھنے والی ایک یونانی ہیں جنہوں نے کونے ہنٹر سے فلسفے میں بی اے کیا ہے۔ وہ بلقان کی ارضی سیاسیات اور ثقافت کو بعدازنوآبادیات اور مارکسی تناظر سے دیھکنےمیں دلچسپی رکھتی ہیں ان کی دلچسپی بالخصوص یونانی قوم پرستی میں ہے۔
———————————————————————————————————————————
یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔
———————————————————————————————————————————
[…] منصوب کیا جاتا ہے۔ ایویلن پی نے یونانی نیو نازی پارٹی گولڈن ڈان کی تاریخ بیان کی ہے۔ وارڈ بیرینشاٹ برصغیر میں ہونے والے فرقہ […]