
فوٹوگرافر: عائشہ ملک| پرانا لاہور
مصر کے میدانِ تحریر سے ترکی کے میدانِ تقسیم تک ہونے والے مظاہروں سے ہمیں مزاحمتی سیاست کے لئے عوامی اورعمومی جگہوں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس بات کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ عوامی وعمومی جگہوں پر مکمل کنٹرول رکھنا اور نظم وضبط قائم کرنا سرمایہ، قوم، طاقتور اور بالادست طبقات کی مجبوری ہے۔ یہی المیہ تاریخِ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کی بعدازنوآبادیاتی ریاستوں کے جنم میں دکھائی دیتا ہے۔ دیدہ و نادیدہ حاشیےکھینچ کرفضاومکان کو تقسیم کر کے طے کیا جاتا ہے کہ ہمارا “گھر” کہاں ہے۔
آج کا نیولبرل عہد کسی زائر کی طرح فضائی اورمکانی سیاست کے قبلے کے گرد طواف پیہم ہے۔ فضاومکان کی علاقوں اور ممالک میں غیر مساویاتی تقسیم کیے بغیرعالمی اقتصادی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ وسائل کی ناہموار بندربانٹ نہ صرف اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ کونسے علاقے مستحق ہیں اور کونسے نہیں، بلکہ اس سے مختلف علاقوں کے استحقاق کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔
سرمایہ داری عالمگیریت نے میگا سٹی کو بھی جنم دیا ہے۔ ان عالمی شہروں کی پہچان ایک طرف تو ان کے اقتصادی زونوں، مالیاتی اضلاح، اشرافیہ کی رہائش گاہوں اور حصاربند ہاوسنگ سوسائٹیوں سے ہوتی ہے تو دوسری طرف یہاں بھرمار ہے پسماندہ محلوں کی، کچی آبادیوں کی، نظر اندازاور گنجان آبادعلاقوں کی جہاں دیہی کوچگراور بین الاقوامی تارکینِ وطن اپنا بیڑا ڈالتے ہیں۔ مختصراَ یہ کہ کل کے نوآبادیاتی شہر کوآج کے سرمایہ دارانہ نظام کی تقسیمِ فضاومکان نے دوام دیا ہے۔ اس حاشیہ سازی، سرحد بندی سےجنگ وتشدد کی غیر ہموار تقسیم کو فروغ ملا، چاہے وہ بلوچستان میں جاری ریاستی جبرکی شکل میں ہویا ملک بھر میں شیعہ برادری پر ہونے والے حملوں کی صورت میں۔
مرحوم دانشور اقبال احمد نے دو دہائیوں پہلے پاکستانی شہروں میں اس رجحان کی یوں نشاندہی کی تھی۔ ” ہر شہر میں امراء کے لئے فضاومکان کا ایک مجموعہ ہوتا ہے تو مفلسوں کے لیے دوسرا۔ شہر کے ‘خوبصورت لوگ ‘ غریبوں کو باہر دکھیل دیتے ہیں۔”* امراء اور غرباء کے درمیان تفریق وتقسیم قائم رکھنے کے لئے فضاومکان کو عسکریتی ساخت میں ڈھالنے کی انتہا ہو گئی ہے۔ حصار بند ہاوسنگ سوسائٹیوں کے بھر مار ہے، اور اسکے ساتھ سڑکوں کا وسیع جال جس کا بنیادی مقصد اشرافیہ کے رہائشی علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا۔
اقبال احمد نے اس رجحان کو “پاکستان کے نقشہ کی آپارتھائیڈ” قرار دیا تھا۔ آج کا عالمی شہر، چاہے وہ کہیں بھی کیوں نہ ہو، اسی ساخت میں ڈھل چکا ہے۔ نیولبرل سوچ رکھنے والوں کے سر پر چاہے دنیا کے چپٹے ہونے کا بھوت سوار ہو، دراصل تقسیم و تفریق اور مدنیتی آپارتھائیڈ اب ایک عالمی مظاہرہ بن چکا ہے۔
انہیں اندیشوں کی وجہ سے تنقید کا پانچواں شمارہ فضا ومکان پر ترتیب دیا گیا ہے۔
براہِ کرم تنقید کی اشاعت جاری رکھنے کے لئے ہماری مدد کیجیے۔
مدیرانِ تنقید، 25/8/2013
———————————————————–
*اقبال احمد، “آ کیوسچن آف ویلیوز”، ڈان اخبار، 20ستمبر 1992