میدانِ تقسیم سے نظارہ

۵ شمارہ

ایچ کبریٰ | ترجمہ: تنقید

Artist: resim77 | Turkish protesters resting Saturday morningفوٹوگرافر: رسم٧٧ | ہفتہ کی صبح ترکی میں

جون ۲۰۱۳ کے آغاز میں ترکی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے میرا سیاست پر سے ایمان اٹھ گیا۔ اتنی نا امیدی زندگی میں پہلے کبھی نہ تھی۔ میں ترکی میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی،ریاست کے جبر وتعصب کا سامنا کیا اور ان تجربات سے یہ سیکھا کہ حالات اور مسائل کافہم ان کی پیچیدگی سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ پر اندرونی اور بیرونی گفتگومیں میدانِ تقسیم کے مظاہروں پر تجزیہ اس غیر ضروری حد تک سادہ تھا کہ اس کا گنجلک حقائق سے کوئی تعلق نہ رہا۔ اس اندازِ بیان سے ایک انکشاف ہوا ۔ جن لوگوں کے ساتھ میری سیاسی وابستگی تھی اور جن پر میں نے اعتماد کیا وہ ترکی کے میدانِ تقسیم کے مظاہروں کے بارے میں دقیانوسی خیالات رکھتے تھے ۔ ان کے خیالات جان کرمجھے شدید دکھ اور ناامیدی ہوئی۔

دکھ اور نا امیدی کے احساس کو مزید ہوا دی روایتی اور سوشل میڈیا پر اس مخصوص سطحی تجزیے نے کہ ترکی میں ہونے والے واقعات کا مقصد حقیقی جمہوریت کا حصول نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر فسطائی آمریت قائم کرناہے۔ کئی تجزیہ نگار مغربی لبرل جمہوری ممالک کے مسائل کو نظر انداز کرکے ترکی سے تقابلی موازنہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ ترکی میں جمہوری نظام ہے ہی نہیں۔ یہ موقف رکھنے والے لوگ مغربی ممالک کے آمرانہ اعمال پر پردہ ڈال کرانہیں تنقید سے بچاتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر امریکی حکومتی پالیسیوں کے آمرانہ و جابرانہ پہلو وں کو نظر انداز کر کے اس کی جمہوریت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ پھر انہیں جمہوری ممالک کی پالیسیوں کو جواز بنا کر دنیا بھر کے لیڈران اپنی آمریت کودوام بخشتے ہیں۔ اس سطحی اور سادہ لفاظی سے ترکی کو آمریت یا جمہوریت ثابت کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوری نظام پر تنقیدی نظر ڈالی جائے تاکہ اس موضوع پر سہرحاصل بحث ہو سکے۔ اس لئے میں سب سے پہلے ترکی کے تاریخی تجربات اور سماجی تعاملات کابیان کروں گی۔

ترکی کی بنیادسلطنتِ عثمانیہ کی قبر پر رکھی گئی تھی۔ اس ملک کا بانی ایک آمر تھا ۔ اتا ترک نے قبل از آزادی اپنے سیاسی مخالفین سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا اور اشرافیہ کے ایک گروہ کو ساتھ ملا کر ’’قانون کی بالادستی‘‘ کی آمریت قائم کی۔ تاریخ میں اتا ترک کو ’’بابائے قوم‘‘ یا ’’والد‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کا خاندانی نام ’’اتا ترک‘‘(جو شاید ان کا پیدائشی نام تھا یا بعد میں اپنایا تھا) کا مطلب ہے ’’ترکوں کو باپ‘‘ ۔ اتا ترک نے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا جو نوآبادیاتی پالیسیوں سے خطرناک حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ سماج کا ایک چھوٹا سا حصہ شہری اشرافیہ بن گیا اور باقی سارے محروم القسمت، کچھ نے نئے سماجی اصولوں کو رد کر دیا تو کچھ کی قومیت اور ایمان ریاست سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس جدیدیت پسند ریاست میں نوآبادیاتی نظام کی طرح ’’تمدنی مشن‘‘ کے عناصر تھے۔ ریاست اور اس کے حلیفوں کی خواہش تھی کہ ایک ایسا نیا سماج تشکیل دیا جائے جس میں وہی لوگ شامل ہوں جو ریاست کے نزدیک مثالی شہری ہیں۔ یعنی وہ نسلی طور پر ترک ہوں یا کم از کم خود کو ایسا سمجھتے ہوں، سیکولرہوں، پڑھے لکھے ہوں، اور شہری اور مغربی تہذیبی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔

ترکی کی سیاسی تاریخ کی کچھ خصوصیات نمایاں ہیں۔ ایک بااثرفوج جس نے سیکولرازم کا رکھوالا بن کرکئی بار منتخب حکومتوں کو بر طرف کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ایک کٹّرنظریاتی عدلیہ جسے بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔  اور ریاست کی لفاظی وا عمال میں رچی بسی نسل پرستی اور قوم پرستی جو پورے نظام اور روز مرہ زندگی کے ہر پہلو میں گھس چکی ہے ۔ پبلک سروس سے لے کر تعلیم اور فنونِ لطیفہ، ہر چیز اشرافیہ کے لیے ہے۔ وہ اشرافیہ جو ویسے تو سیاسی میدان کے ہر کھلاڑی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے، مگر اس کا گٹھ جوڑ زیادہ تر مرکزی دائیں بازو کی ان سیاسی جماعتوں سے ہوتاہے جو پسماندہ طبقات اور دیہی عوام میں مقبول ہیں۔ سیاسی الحاق سے اشرافیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کے سماجی، اقتصادی، اور سیاسی مفادات کو انتخابی عمل اور منتخب اہلکاروں سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ اسی لیے انتخابات باقاعدگی سے ہونے اور الحاقی حکومتوں کی تشکیل کے باوجود نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی جمہوریت کے پتلے لبادے میں ملبوس طاقت کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس ملک کے حقیقی حکمران فوج، عدلیہ، اور بیوروکریسی ہی رہے ہیں۔

۲۰۰۲ میں عدالت وَ کلِکنمہ پارٹی، یعنی عدل و ترقی پارٹی(اے کے پی) اور طیب رجب اردگان کی کامیابی کے سیاسی، تنظیمی اور سماجی عناصر کو اسی تاریخی اور سیاسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ انتخاب میں پہلی بار حصہ لینے والی اے کے پی کی کامیابی کے بارے میں روزنامہ صباح نے ’’انقلابِ اناطولیہ‘‘کی مناسب شہ سرخی لگائی تھی۔ اے کے پی اور اردگان نے منتخب ہونے کے بعد اپنے حمایتیوں کی تعداد میں اضافہ کیا کیونکہ پارٹی نے ترقی پسند اقتصادی پالیسیاں اپنائی اور بڑے انفراسٹرکچر اور پبلک سروس کے پراجیکٹوں پر کام کیا۔ اس طرح اے کے پی نے ایک وسیع حلقے میں اپنے ووٹروں کی تعداد کو بڑھایا ۔ ان حمایتیوں میں سماج کے وہ گروہ شامل تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے نالاں تھے۔ متواسط طبقہ کے لوگوں کو شخصی آزادی اور اقتصادی استحکام کی خواہش تھی۔ متقی قدامت پسندوں کو برابری چاہیے تھی کیونکہ انہوں نے کئی دہائیوں تک ریاست کا امتیازی سلوک برداشت کیا تھا۔ کردوں نے، جن کی شناخت کو ریاست نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ انہیں جبر وتشدد کا نشانہ بنایا، اے کے پی سے یہ توقع لگا لی کے وہ ان کی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستی جبر کو ختم کر ے گی۔ کردوں کے حوالے سے اے کے پی کا کردار ملا جلا رہا ہے۔ کچھ بہتری کے نشان ملتے ہیں جیسا کہ میڈیا میں اور کردوں کی شناخت کو تسلیم کرنیکے حوالے سے، لیکن کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن سے اے کے پی کا رویہ ترکی ریاست سا ہی نظر آتاہے۔ حال ہی میں اے کے پی نے امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے، تاکہ کرد سیاسی اور عسکری قوتوں کے ساتھ مل کر اس تنازعہ کو حل کیا جاسکے اور کردوں کے قانونی، سیاسی، اور سماجی حالات بہتر کیے جا سکیں۔

اپنے گیارہ سال دور میں اے کے پی کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انکی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔ فوج کی طرف سے ایک برقی یاد داشت جاری پونے پر ۲۰۰۷ میں وقت سے پہلے الیکشن کروانے پڑے، البتہ اے کے پی یہ الیکشن آسانی سے جیت گئی۔ پھر کمالسٹ عدلیہ نے پارٹی کو توڑنے کی کوشش کی۔ اس مقدمہ کو ’’گوگل مقدمہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ لگتا تھا کہ پارٹی کے خلاف زیادہ تر ثبوت گوگل سرچ سے اکھٹاکیا گیا تھا ۔ پر اب اردگان ترکی کے سیاسی نقشہ پر حاوی کمالسٹ اسٹیبلشنٹ پر کسی حد تک قابو پاچکاہے۔

لیکن ایک مسئلہ تھا۔ ارگان کے مدِمقابل کوئی تگڑا امیدوارنہیں ۔ حکمران پارٹی اور اس کے طاقتور لیڈر نے اپنے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کیا اور کوئی خاص مخالفت بھی برداشت نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ حکومت کی پالیسی سازی میں آمرانہ پن بڑھ گیا۔

اے کے پی کے دورِ حکومت میں کئی سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں آئیں۔ محنت کش طبقات سے کئی قدامت پسند مڈل کلاس کا حصہ بن گئے۔ شہری سازی میں تیزی کے باعث دیہی آبادی کم ہوئی۔ دیہی علاقوں سے شہروں میں نکل مکانی کی وجہ سے استنبول جیسے بڑے شہر جو پہلے ہی آبادی کے مسائل سے دوچار تھے، پر مزید بوجھ پڑا۔ پھر سماج کا ایک نیا حصہ عمومی بحث و مباحثے میں پہلی مرتبہ شامل ہوا جس سے رہن سہن اور اظہار کے طور طریقے کے حوالے سے سیاسی چپقلش بھی ہوئی۔ ان تمام تبدیلیوں کا ایک اثر یہ ہو کہ اردگان پارٹی کا اوتار بن کر سامنے آیا۔ اس کی لفاظی میں آمریت کی جھلک بڑھتی گئی جس سے ترکی کے سماج اور سیاست میں تفریق بڑھتی گئی۔

کسی اپوزیشن کی غیر موجودگی میں ترکی کی بڑے شہروں کی آبادی کے ایک اہم حصے نے غازی باغ مظاہروں کے ذریعے اپنا سیاسی وجود منوایا۔ اگر آپ مجھ سے تقسیم یا غازی باغ کے لیے کوئی ایک اصطلاح استعمال کرنے کا کہیں تو وہ ہو گی : تصفیہ نفس۔

اے کے پی کے وزیرِ تعلیم نبی آوچی نے خود اعتراف کیا: ’’ ہم نے پانچ دنوں میں وہ کر دکھایا جو اپوزیشن کئی سال میں نہ کر سکی،یعنی سماج کے مختلف حصوں، گروہوں، اور فرقوں کواس طرح یکجا کرنا جس کا موجودہ حالات میں تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔‘‘ یہ وہ تصفیہ نفس تھا جس میں حکومت اور اے کے پی سے غیر مطمئن لوگ ، جو کہ اپوزیشن پارٹیوں میں اپنی آواز اور اصولوں کے لیے جگہ نہ پا سکے تھے، یہ کہ رہے تھے کہ بس اب بہت ہو گیا۔ ان کی شکایات مختلف تھیں۔ شروع کے چھوٹے مظاہروں میں ماحولیاتی تحفظ کے خواہاں، شہر سازی کے ماہر، اور سرمایہ مخالف لوگوں کے علاوہ کچھ موقع پرست عناصر بھی شامل تھے۔ لیکن پولیس کے پرتشدد حملوں کے بعد جو ہجوم سڑکوں پر امڈ آیا اس میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے جن کا مقصدِ مشترک تھا پولیس کی بربریت کے خلاف آواز بلند کرنا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے ان گروہوں نے مختلف اقسام کے مطالبات، شکایات، اور مقاصد بیان کرنے شروع کر دیے۔ ان میں شامل تھے فیمنیسٹ گروپ ، سرمایہ مخالف گروپ، مارکسسٹ، انارکسٹ، کرد سیاسی کارکنان، ترکی کٹر قوم پرست، ایل جی بی ٹی تنظیمیں، دائیں بازو پارٹیاں، بائیں بازو پارٹیاں، فٹبال کلب کے فین، اور وہ غیر سیاسی نوجوان جنہوں نے اس سے پہلے کبھی کسی مظاہرے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اگرچہ غازی باغ میں موجود گروپوں کی کوئی ایک شکل نہیں تھی، یکجہتی میں مظاہرے ان شہروں میں بھی ہوئے جہا ں کمالسٹ اور بائیں بازو کے گروپ زیادہ حاوی ہیں۔ ان گروپوں کے درمیان چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے کے واقعات کی خبر بھی سننے کو ملتی ہے پر میدانِ تقسیم میں ہونے والے بڑے مظاہرے میں مختلف سیاسی گروپوں کے مابین کوئی خاطر خواہ ٹکراؤ نہیں ہوا۔ پولیس نے جبر و تشدد کا بار بار استعمال کرکے مظاہرین کو تتر بتر کردیا۔ یہ ترکی میں جمہوریت کے لیے خوش آئیند بات نہیں۔

بین الاقوامی میڈیا اور مقامی گفت وشنید میں ابھرنے والے ایک موضوعِ مشترک نے مجھے کچھ حیران سا کر دیاتھا۔ پولیس کی بربریت کو اس منطق سے جوڑاگیا کہ ترکی میں ساختیاتی سطح پر جمہوریت کا فقدان ہے، اور اس اندازِ بیان میں یہ اشارہ بھی تھا کہ ترکی ایک فسطائی آمریت ہے۔ مقامی لفاظی میں ایسا سننے کو ملے تو کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔ عمومی سیاسی لفاظی میں، چاہے وہ بائیں بازو کی طرف سے ہو یا دائیں بازو کی طرف سے ، نازی اور فسطائیت تشبیھات کا حوالا دینا کافی عام سی بات ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ہونے والے مظاہرے جن میں اسی طرز کی پولیس کی بربریت نظر آئی، بین الاقوامی میڈیا نے بالکل مختلف انداز میں انہیں پیش کیا۔

تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ مظاہروں کے بارے میں سیاسی نظام کے حوالے سے مختلف رائے کیوں نظر آتی ہے؟ کچھ ممالک کو جہوریت کی اعلیٰ اور قائم مثال قرار دیا جاتا ہے ۔ ان کی حکومتِیں تشدد کا استعمال جب چاہیں کریں ان کے سیاسی نظام کے بارے میں اچھا تاثر قائم رہتا ہے۔ ان ممالک میں ہونے والے مظاہروں کو کبھی بھی خلافِ حکومت نہیں کہا جاتا بلکہ ان کے لیے مخصوص اور محدود اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں، جیسے کہ خلافِ آسٹیریٹی۔ یورپ اور امریکہ کو جمہوریت کی اعلیٰ مثال سمجھنے کا رویہ ترکی کے مظاہرین میں عام تھا۔ یورپ اور امریکہ کے بارے میں اس تاثر کے بنیاد پر ترکی کا ان سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ ترکی میں جو ہورہا ہے وہ یورپی ممالک اور امریکہ جیسے ترقی پسند جمہوری ممالک میں کبھی نہ ہو۔‘‘ اردگان نے بھی اسے رویہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

اررگان نے اس سارے عرصے میں کئی تقاریر میں یورپی لیڈران اور غیر ملکی میڈیا کے دوغلا پن کا ذکر کیا جو ترکی میں پولیس کی بربریت اور اردگان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ اس نے نشاندہی کی کہ پولیس کی بربریت مغرب میں بھی عام تھی۔ ان نام نہاد ترقی پسند جمہوری ممالک میں آنسو گیس کا استعمال عام تھا۔ آنسو گیس کا استعمال ترکی میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے اور گریزی مظاہروں میں بھی یہ ایک اہم شکایت رہی ہے۔

پس اردگان نے اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اعمال کا جواز بنایا۔ یورپی اور شمالی امریکی ممالک کو حقیقی جمہوریت قرار دینے والا یہ جھوٹا تصور ان حکومتوں کے لیے یہ آسان کر دیتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق اور آزادیاں ضبط کریں، داخلی اور خارجی سطح پر بے لگام ایگزیکٹو اختیارات کو مزید وسیع کریں اور ہر طرح کے مزاحمتی و مخالفی لوگو ں اور گروہوں کو منظم تشدد اور جبر کا نشانہ بنائیں مگر ان کی ساکھ کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔ یعنی یہ ممالک اپنے جرائم اور خراب اعمال کو قابلِ قبول بنانے کے لیے جمہوریت کا نام استعمال کرتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی دوسرے بھی کرتے ہیں۔ اردگان نے پولیس اور آنسو گیس کے استعمال کا دفاع اسی انداز میں کیا۔

جمہوری ممالک کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ ان میں آمریت یا پولیس کی بربریت کے مسائل نہیں ہوں گے کسی مغالطے سے کم نہیں۔ جمہوری ممالک ریاست کی قوت سے محفوظ نہیں۔ شہری حقوق اور آزادیوں کے مسائل سے جمہوری ممالک بھی دوچار ہیں۔ یہ صرف ان ممالک کے مسائل نہیں جہاں آمریت ہو یا جمہوریت کی نسبت کم برابری والاحکومتی نظام ہو۔ جمہوریت تمام سیاسی مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ خامیاں جمہوریت کا حصہ ہیں۔

شاید گزشتہ ایک دہائی میں ترکی میں جمہوریت کو فروغ دینے والی سب سی زیادہ اہم اور موثر قوت اے کے پی ہی ہے۔ اب بھی یہ ترکی کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے واحد جماعت ہے جو کرد مسئلہ کو مذاکرات سے حل کرنا چاہتی ہے۔ کردتحریک کی سیاسی پارٹی، بارسی و دیموکرسی پارٹیسی (امن و جمہوریت جماعت، بی ڈی پی) کے علاوہ اے کے پی واحد جماعت ہے جسے کردستان میں قابلِ ذکر ووٹ ملے۔ یہ واحد جماعت ہے جس کی ایک واضح داخلہ پالیسی اور پیچیدہ اقتصادی پالیسی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس جماعت نے ۲۰۱۱ میں ہونے والے وہ الیکشن جیتے جن میں ووٹ ڈلنے کا تناسب ۸۳ فیصد تھا۔ یہ ترکی کی منتخب جمہوری حکومت ہے جس کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

سوال یہ ہے کہ اے کے پی کو بہتر کیسے بنا یا جائے؟ ترکی میں جمہوری عمل کو فروغ کیسے دیا جائے؟ اپنے جمہوری اداروں کو روادار کیسے بنایا جائے؟ اس بات کو یقینی کیسے بنایا جائے کہ کوئی اقلیت اکثریت کے عزائم کی بھینٹ چڑھ کر سیاسی عمل سے نا امید نہ ہوجائے؟ ایسا جمہوری نظام کیسے مرتب کیا جا ئے جس میں اقلیتوں اور دوسروں کو بہتر مواقع اور نمائندگی ملے؟ جمہوریت میں ایگزیکٹو قوت پر لگام کیسے ڈالی جائے؟ سوال بہت ہیں، اور اگر آپ باریک بینی سے دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ان میں سے کچھ ہی سوال محض ترکی تک محدود ہیں۔

پس اگر ترکی کے مظاہرے ہمیں ایک بات سمجھاتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ ہمیں جمہوری نظامِ حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں پر بحث کرنی ہو گی تاکہ ہم ان کا ازالہ کر سکیں۔ یہی بہتر راستہ ہے، نا کہ ہم کچھ ریاستوں کو بے مثال یوٹوپیا قرار دے کر باقیوں کو ناکام ریاستوں کے کوڑے دان میں ڈال دیں۔

ایچ کبریٰ ترکی میں رہائش پذیر قلمکار ہیں۔

Tags: , , , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *