چلو ویت نام چلو | دانش مصطفیٰ

مترجم: سیّد ریحان

میں ویتنام کبھی نہں گیا تھا اور یہی وہاں جانے کی بہترین وجہ لگ رہی تھی۔ البتہ راقم ال حروف کھانے کے بھی کافی شوقین ہیں اور ویتنام کے کھانے ذائقے اور معیار کے حوالے سے دنیا میں مشور ہیں۔ تو میں نے اپنا رُخ ہوچی مِنح شہر(سائگون) کی طرف کیا۔ اگرچہ میرا مقصد صرف ملک سے لطف اندوز ہونا تھا لیکن کیا پتا تھا کہ مجھے اس سے کُچھ زیادہ ہی حاصل ہونا ہے۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ویت نام کے سفر میں مجھے اس کی ترقی کے سفر کا آئینہ بھی ملے گا۔ اگرچہ ترقی کا یہ سفر کافی حد تک جنوبی ایشیا کا منظر پیش کرتا ہے البتہ ویت نامی کھانوں کے اجزاء کی طرح اس کی ترقی کی جدوجہد بھی جنوبی ایشیا سے کافی مختلف ہے۔

ویتنام میں جاتے ہی آپ لکھ پتی بن جاتے ہیں۔ ایک امریکی ڈالر بیس ہزار ویت نامی ڈانگ سے زیادہ وقعت رکھتا ہے۔ اگرچہ ڈانگ میں ہی سہی، ویت نام میں اپنے دس دن کے قیام میں میں نے لاکھوں خرچ کیے۔ لاکھوں کی خریداری اور دکانداروں سے ہزاروں لاکھوں کی بحث سے میں خُوب محظوظ ہوا۔

سائگون شہر کے ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں قیام کیا جس کے دائیں بائٰیں ہارڈوئیر کی دکانیں تھیں اور وہ ہمارے سٹی صدر روڈ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ چونکہ میں اور میرا دوست صرف ایک دن کے لئے تھے، ہم نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر مغربی سیاحوں کے ٹھکانوں کا رُخ کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان جگہوں پر سڑک پر خوراک فروش ہلکی پھلکی انگریزی جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مغربی سیاخوں کا ایشیائی سیاح گاہوں میں مشاہدہ کرنا میرے لئے ہمیشہ ایک اچھا تجربہ رہا ہے۔

ہم نے بہت مزیدار کھانا بہت سستے میں کھا لیا اور مغربی سیاحوں سے بھی خوب محظوظ ہوئے۔ وہ اپنے مختلف سیاحی ملبوسات میں ماحول سے لطف اندوز ہوتے اور رقص کرتے نظر آ رہے تھے۔ وہاں دو بڑے مشروب خانے تھے جن کے گرد ویتنامی لوگ سیاحوں کو زیورات، مالش کے ٹکٹ وغیرہ فروحت کرنے میں مصروف تھے۔ جنوب مشرقی ایشیا خصوصی طور پر ویت نام کا سب سے برا منظر یہ تھا کہ بڑی عمر کے مغربی سیاح نہایت نوجوان لڑکیوں کو باہوں میں لئے نظر آتے ہیں۔ اس چیز کو اگر ہم پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم ایسا منظر پاکستان میں دیکھنا پسند کریں گے؟

کین تھو کا رستہ بہت خوبصورت اور متاثرکن تھا۔ پانی کی ڈھلوانیں اور چاول کے کھیت رستے کی بہت دلکش تصویر کشی کر رہے تھے۔ رستے اور سڑکیں بالکل صاف تھیں۔ ہمارا ڈرائیور باقی تمام گاڑیوں کی طرح حد رفتار کی پابندی کر رہا تھا لیکن میرے اندر کا پاکستانی اس چار گھنٹے کے سفر کو شدت سے ڈھائی گھنٹے میں ختم کرنا چاہ رہا تھا۔

ویتنامی معاشرہ کافی حد تک اب بھی پانی پر اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ پاکستانیوں سے قطعی مختلف، ویتنامی لوگوں نے ہمیشہ سے اپنا جینا مرنا اور کام دھندہ پانی ہی سے منسلک رکھا ہے لیکن دنیا کی ہر جگہ کی طرح اب ویتنام میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے اور ویتنام اپنے آپ کو جدت اور تبدیلی کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔ جہاں لوگوں کو سیلاب، بارشیں اور زمین کے کٹاؤ جیسی چیزیں نظام کا حصّہ لگتی ہیں، وہاں اب معاشرے کے لیے لازم ہے کے ان خطرات کا مقابلہ کیا جائے اور انہیں روکا جائے۔

میرے دوست ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے ذریعے دریائے میکانگ کے شہری کناروں پر حیاتی اقدامات کے ذریعے زمین کے کٹاؤ کو روکنے کی کوشش جاری ہے۔ یے تو یہ اچھی کوشش لیکن جیومورفولوجی کے اصول یہ کہتے ہیں کہ زمین کے کٹاؤ کو اگر ایک جگہ اگر روکا جائے تو یہ محظ رکتا نہیں بلکہ کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ تو اگر ایک آبادی کو زمین کے کٹاؤ سے بچایا جائے تو دوسری خطرے میں آ جاتی ہے۔ ویتنامی لوگوں کے لئے زمین کا کٹاؤ اس لئے مسئلہ بنا ہے کیونکہ روایئتی لکڑی کے گھروں اور کشتیوں کی بجائے انہوں نے ٹھوس مکانوں کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ اب مغربی تربیت یافتہ ماہرین راکفیلر فاؤنڈیشن کی مدد سے ویتنامی لوگوں کو ان کے ماحول کے مطابق ڈھالنے میں ان کی مدد کریں گے۔

انتہائی جدید ہوچی منہ ہوائی اڈے سے بالکل مختلف دانانگ ہوائی اڈے پر جہاز کی ناہموار سواری نے بار بار مرنے کے خوف میں مبتلہ کیا۔ ایشیا کے مون سون میں کوئی بھی پرواز معمول کی نہیں ہوتی۔ داننگ شہر کا نیا ڈریگن برج دنیا میں ویتنام کی جدت کا اعلان ہے۔ ویتنام کی متاثرکن مادی ترقی کی علامت اس کی بلا تعتل بجلی کی فراحمی اور شہروں کی خوبصورت روشنیاں ہیں جو کہ ملک کے چھوٹے سے درمیانے درجے کے پن بجلی کے منصوبوں کا نتیجہ ہیں۔ ویتنام کی طرح کی مرکزی ریاستوں میں ڈیموں کی تعمیر ایک قومی ضرورت ہے۔ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ ویتنام کی حکومت نے زیادہ توجہ چھوٹے ڈیموں اور توانائی کے منصوبوں کو دی ہے اور یہ ایک ایسا سمجھدار فیصلہ ہے جو کہ ہماری حکومتوں کو بھی کرنا چاہیے۔

میرے عالمی ثقافتی ورثے ہوئی آن نزد دا نانگ کے دورے سے مجھے اس چیز کا واضح احساس ہو گیا کہ بڑے پیمانے پر سیاحت کے ورثے پرکس طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پرانے تجارتی شہر ہوئی میں کوئی ورثہ باقی نہ تھا۔ اصل عمارتوں کی جگہ صرف ریستوران، دکانیں اور مساج پارلر ہیں لیکن ویتنام کا قدیم دارالخلافہ “ہُواے”اس سے بالکل مختلف ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ماضی میں ویتنام کی سب سے خونخوار جنگ بھی اسی شہر میں لڑی گئی تھی۔ شہر شمالی اور جنوبی ویتنام کے درمیان غیر فوجی زون (ڈی ایم زیڈ) پر قائم ہے۔ لہذا شہر کی سب سے مشہور بار کا نام ڈی ایم زیڈ ہے۔ شہر میں بڑی عمر کے متعدد امریکی نظر آتے ہیں جنہوں نے اسی شہر پر اپنی جوانی میں بمباری کی تھی۔ ویتنام وہ ملک ہے جو خون اور آگ کی جنگ کے بعد بھی جدت کے رستے پر چلا ہے۔ امریکہ نے جی۔آئی، بی۔52، ایف۔١١١ اور نئپام کی جنگی طاقت سے نا صرف ملک کا جغرافیائی بلکہ سماجی نقشہ بھی بدل ڈالہ۔ کمیونسٹ دورِحکومت میں عوام کو اظہارِاختلاف یا مختلف نقطہؑ نظر کا بہت کم موقع دیا گیا اور بہت سخت قانون نافذ کیے گئے۔ لیکن دوسری جانب بڑی سطح پر برابر تعلیم تک رسائی، بنیادی صحت اور اقتصادی سلامتی جیسی سہولتیں بِلا امتیاز فراہم کی گئں۔ ویتنامی معاشرے میں ذبردستی عائد کی جانے والی جدت کے پیشِ نظر ویتنام نے سرمایادارانہ نظام کو ترقی کی مشعلِ راہ بنایا ہے۔ اس نظام کے تحت جہاں عوامی زندگی کرپشن کا شکار ہے وہاں بے پناہ سماجی نقل و حرکت بھی موجود ہے جس کی وجہ سے ویتنام کی تعلیم یافتہ عوام کیلئے بے پناہ مواقع بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں جس طرح کمیونسٹ حکومت نے ویتنام میں جدت پسندی کو مسلط کیا ہے پاکستان میں بھی آدھے کام کے بجاۓ شاید ایسے ہی ہونا چاہیےتھا۔

ویتنام کے بڑے شہروں میں لوگ عموماَ چھوٹے موٹر سائیکلوں پر نظر آتے ہیں۔ چند گاڑیاں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن وہ یا تو ٹیکسیاں ہوتی ہیں یا پھر امیر طبقے کی بی۔ایم۔ڈبلیو اور بینٹلے جیسی مہنگی گاڑیاں ہیں۔ زیادہ تر ہوٹل ریاست کے ماتحت کام کرتے ہیں اور عام اعتبار سے دس گناہ زیادہ عملہ دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ ویتنام سرمایہ درانہ نظام کے حوالے سے اتنا کامیاب نہیں ہے لیکن ملک میں حالیہ بننے والی اونچی عمارتوں اور پلوں کو دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ یہ ملک فوجی طاقت کی بنا پر امریکہ کو شکست دینے کے بعد ایک خاموش فخر کی نمائیندگی کرتا ہے۔ ریاست اس عظم کی آئینہ دار ہے کہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کرلے گی۔ ویتنام کے پاس پاکستان کو پیش کرنے کے لیے اہم سبق ہیں اور ہم اگر مغرب کا پیچھا کرنے کی بجائے اس شاندار ملک کے تجربات پر غور کریں تو یقیناَ ہمارے لئے بہتری ہو گی-

پوسٹ سکرپٹ: ہمارے بیکرز کو بھی ویتنامی بانہ می روٹی کو اپنانا چاہیے۔ ہمیں بدقسمتی سے برطانوی نوآبادیاتی نظام سے ڈبل روٹی ملی تھی۔ یہ وہ نوآبادیاتی وراثت ہے جو کاش ہم ویتنام میں فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سے تبدیل کر سکتے۔ صرف اس لئے میں کہتا ہوں کہ “چلو دا نانگ چلو، ہواے کے پار چلو-

دانش مصطفیٰ  کنگزکالج لندن کی جغرافیہ کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔

Tags: , , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *