حمایت کی سیاست

4 شمارہ | English 

Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series

Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series

مترجم: یاسین چنگیزی

” سیاست کو محض اقتدار کا حصول قرار دینا، اپنے آپ کو سیاست سے دور کرنے کے مترادف ہے۔” — جاک رانسیئر

ہم تبدیلی چاہتے ہیں” —  پاکستان تحریک انصاف کا ہر حمایتی”

فرانس کالونی ایف سیون، اسلام آباد کے رہائشی پاکستان کے معاشی یا معاشرتی دھارے کا حصہ نہیں، وہ کچی آبادی میں رہنے والے غریب مسیحی ہیں تاہم وہ ایک ایسے معاشرے کی شہریت کے کمزور مگر برابر کے دعویدار ہیں، جو اقتصادی، مذہبی اور ادارتی ناہمواریوں سے لبریز ہے۔

الیکشن کے وہ ماضی کی طرح اپنی انتخابی قوت اس شخص کو دینگے جو انکی معاشی اور سماجی بہتری کا سبب بن سکے گا، یعنی دائیں بازو کی جماعت اسلامی کاامیدوار،  ارب پتی میاں اسلم۔

میاں اسلم اس انتخابی حلقے کا ایک روایتی سیاستدان اور امیدوارہے جو ووٹ جمع کرنے کے فن میں ماہر ہے۔ یہ نہ تو مذکورہ لوگوں کو نجات کی کوئ امید دلاتا ہے نہ ہی کوئ نظریاتی پیغام سناتا ہے۔ اسلم کی سیاست ان وعدوں پرمبنی ہے: ریاست کی سرویسزتک رسائی، بنیادی تحفظ اور مستقبل میں روزگارمہیا ہونے کا امکان۔ سماج کی باہری حدود میں بسنے والی اس غریب کمیونیٹی کے لیے بنیادی ضروریات کو فوری پورا کرنے والے قابل اعتبار سر پرست کی اہمیت کسی بھی طبقاتی یا نظریاتی عنصر سے بڑھ کر ہے۔

اس طرح کی اور کہانیاں بھی موجود ہیں جو سیاسی مبصرین کے نزدیک ملک میں نظریاتی سیاست کے مرنے کی صدائے نوید ہیں۔ اس مفروضے میں کافی جان ہے، اوراس سے گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستانی سیاست کے خدوخال کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے۔

لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا آنے والا الیکشن میں بھی یہی سرپرستی کی منطق حاوی ہو گی کہ نہیں؟ میرے نزدیک یہ ایک محدود حد تک ہو گا۔

میرےدعوے کی بنیاد اس تجزیہ پر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری تبدیلیاں نظر آتی ہیں جو ووٹرز کی سرپرستی کی سیاست کو نئی شکل دے رہی ہیں اور ہمیں ان پر توجہ دینی چاہیے۔ تاہم اس بات پر بحث سے پہلے یہ بیان ضروری ہے کہ سرپرستی کا یہ نظام ہمارے سیاسی جغرافیہ پر کیوں حاوی رہا۔

بے حسی کی اجارہ داری

 سر پرستی کے منطق کے پیچھے یہ دانائ کار فرما ہے: 1970 کے الیکشن میں تو دائیں اور بائیں بازو میں واضح فرق تھا، لیکن اس کے علاوہ  پاکستان میں انتخاباتی سیاست اب محض علاقائی اورعملگرا سیاست بن چکی ہے، جس میں کسی نظریہ یا پارٹی سے منصوبیت کی بجائے زیادہ اہم ہیں سیاسی امیدواروں کا انفرادی اثرورسوخ اور ووٹرز کی قوم، ذات، قبیلے اور برادری سے وفاداری ۔ کئی مبصرین کے نزدیک اصل مسلئہ ریاستی ساخت ہے جوسرپرستی کے ایک نیٹ ورک کی طرح ہے جس میں سیاست دان محض ڈسٹریبیوٹر کا کردار ادا کرتا ہے اور سیاست محض اس ریاستی ڈھانچے تک رسائی کا کھیل بن گئی ہے۔

کچھ تجزیہ نگار”خاندانی سیاست” کو  اس سرپرستی کی سیاست کی بنیاد قرار دیتے ہیں، لیکن اس فرسودہ نظام کی اصل ذمہ دار تو فوج ہے۔ فوج کے کردار پر اکبر زیدی، علی چیمہ، عاصم سجاد اور شاندانہ محمد جیسے تجزیہ نگاروں نے زیادہ گہرائی، ثبت اور فصاحت کے ساتھ لکھا ہے۔

سرپرستی کے منطق کے پیچھے فوج کا مکروہ چہرہ توجہ کےلائق ہے۔ ہر فوجی مداخلت طاقت کو ایک جگہ مرکوزکرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ اداروں کو غیر سیاسی بنانے، علاقائی حکومت کو غیر جماعتی شکل دینے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ آمریت کا قانونی جواز بنایا جاسکے اور فوجی حکومت کے خلاف عوامی سر کشی کو روکا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی مسائل ومعاملات میں مقامی اورعلاقائی رنگ آگیا ہے، یعنی مجموعی اور نظریاتی سیاست سے دوری ہونی نظر آتی ہے۔

ان اقدامات کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کی سخت سر کوبی ، فوجی سیاسی کلچرکا فروغ، طالب علموں کی یونین پر پابندی، علاقائی قوم پرستوں کو باغی قرار دینا، اور باقاعدہ طور پر مزدوروں اور کسانوں اور ملک گیر سیاست کو جبری تباہ کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔  مذہبی حقوق پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوج نے ان تمام خیالات کے خلاف ایک ٹھوس نظریاتی تحریک بھی چلائی جو ان کے نزدیک خطرناک ہیں ۔ ان میں شامل ہیں دونساتمک فن یا مخرب اخلاق/قانون اور ادب سے لے کر متبادل تاریخ اور اصل سائینسی تحقیق تک۔

اسطرح  فوجی آمریت کا یہ نظام  ایسی سیاست کے امکانات محدود کرنے میں کامیاب رہا جس بنیاد پیسے، مذہب اور عارضی طاقت کے استعمال کی بجاۓ نظریات کے تبادلے پر رکھی جائے-  یقینا فوج کو ہمیشہ بیوروکریسی، عدلیہ، سیاسی طبقے، مذہبی گروہ، اور مڈل کلاس پاکستانیوں کی شکل میں اپنی اداریاتی تجربات کے لیے ایسے تیار حریف ملے ہیں جو اپنی فکر کوتا میں گم ہیں۔ ان گروہوں کے اہم دھڑوں نے فوجی غاصبوں کی کی متواترحمایت تو شاید اس نیت سے کی ہے کہ پاکستان میں آئے روز آنے والے بحرانوں کا جلد خاتمہ کیا جا سکے۔

اس ضرورت سے زیادہ اداریاتی مہم جوئی کا نتیجہ بہت واضح ہے: علاقائیت پر مبنی غیر رسمی سر پرستی کی تشکیل، ایک ایسے غیر محفوظ سیاسی طبقہ کا قیام جوموثر قومی حکومت سے قاصر ہے، وسیع پیمانے پرحقیقی سیاسی بحث و مباحثے کا فقدان اور بے حسی پر مبنی شہریت کے حامل لوگ۔

البتہ سر پرستی کی اس سیاسی طریقہ کار کے جنم سے ریاست اور معاشرے میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں، اور آئندہ کے لئے آگے ہمیں بہت سا کچھ مختلف ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

تبدیلی کہ جس پر یقین ہو

ستر کے دہائی سے اب تک پاکستان بڑی تبدیلیوں سے گذرا ہے۔ خاص طورپر آبادی کی دیہاتوں سے شہروں میں منتقلی جو کہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر نادانستہ طور پر ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی سیکڑوں کی تعداد میں لوگ مڈل کلاس طبقہ میں شامل ہوئے ہیں۔

اس طبقے کے لوگ کافی حد تک انفرادی سوچ رکھتے ہیں، غربت سے امارت کی طرف یہ طبقہ سماجی طور پرمتحرک ہے، اور طبقہ منتشر اور بکھرے پن کا شکار ہے۔ ان کی انفرادیت اور بکھرا پن، انہیں سرپرستی کی سیاست میں روایتی صلاح مشورے سے چلنے والے گروہوں سے مختلف بناتا ہے۔ اور آج کی آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مبنی ہے: ایک کروڑ تیس لاکھ آبادی کی عمر پچیس سال سے کم یے۔ اور یہ زیادہ ترلیبر فورس سے بھی باہر ہیں کیونکہ لیبر فورس کا پچاس فیصد سے کم حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نتیجتاََ اس آبادی کی ریاست سے دوری زیادہ ہے چونکہ ریاست بھ اب ملازمت کے مطالبات کو پورا نہیں کر پا رہی اور یہ مطالبہ سرپرستی کے نظام میں ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

کئی دیائیوں تک پاکستان میں ریاستی طاقت شدت سے متمرکز رہی ہے۔ اب یہ طاقت بھی منتشر ہورہی ہے۔ افقی سطح پر اپنی بات منواتی ہوئ عدلیہ اور نجی میڈیا کے ابھار سے اور عمودی سطح پر صوبائ اختیارات کی قانونی طور پر اجراہ سے سر گرم سحافیوں اور ججوں کی طرف سے بڑھتی ہوئ عوامی جواب طلبی سے غیر رسمی سر پرستی پر عمل داری واضح طور پر ایک خطرناک مشق بن چکا ہے۔ عین اس وقت اٹھاروی ترمیم کی صوبائ عدم مرکزیت نے سیاست دانوں کو قانون سازی کے لیے زیادہ جگہ فراہم کی یے۔ اسطرح وسائل کی تقسیم (سیاسی) سرپرست کی طاقت سے باہر جاتا نظر آۓگا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا بھی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کر رہا ہے، آن لائن کی سہولت کے حامل لوگ ابھی نک پاکستان کا بمشکل چھٹا حصہ ہے، لییکن اس سال کے اوائل میں شعیہ کشی کے خلاف ملک گیر احتجاج نے دکھا دیا کہ کمیونیکیشن، ٹیکنا لوجی سیاسی منظر نامے کو بڑی حد تک متاثر کر سکتا ہے، مظاہرین نے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے معلومات

پیغامات اور تصاویر نے احتجاج کے عمل کو پروان چڑھانے میں شہدا کی فیملی جو کے کوئیٹہ میں نالہ کناں تھے کافی حد تک موثر ثابت ہوئی۔  صوبائی حکومت کا تخت الٹنے میں سوشل میڈیا کا میڈیا کا اہم کردار تھا۔ یہ اھتجاج ایک مثال تھی کہ سوشل میڈیا  کس حد تک لوگوں کو ایک دکھ درد کی دوا کے لیے فاصلے ختم کر کے یکجا کر سکتی ہے۔ لوگوں کی اتنی آسانی سے ایک دوسرے تک رسائی سیاسی نظام پر بہ آسانی اثر انداز ہو سکتی ہے حتی کہ فرد واحد کا نظریہ بھی

آخر کار، ریاست کی استبدادیت، جس نے بشمول سب نظریاتی احداد کو سرپرستی کی سیاست کے لیے مشق کی کویرسیو گارنٹی دی ہوئ تھی اب کافی حد تک ناکام پڑ چکی ہے۔ ریاست کا  عسکری بیوروکریٹک آلہ اب مردومی نساب کے احداد کی تشکیل میں مزید سپریم اتھارٹی سے لطف اندوز نہیں ہوتا، جیسا کہ ایک بار ہوا تھا۔  جبکہ دوسری جانب استبدادیت میں کمی کے نتائج حیرت انگیز حد تک تباہ کن ثابت ہوئی ہے(ریاستی قوانین کو پر تشدد مشکلات کی شکل میں) یہ بہرحال نظام کے تسلسل میں دراڑ کی نشاندہی کرتی ہے، جس کے دور اندیش نتائج ابھی تک مبہم ہیں۔

پاکستان تشدد کے سیاسی بہاؤ میں ہے—جو کہ شورش، بغاوت، عوامی سیاست، دہشت گردی، اور شناختی بنیاد کی تشدد پر مشتمل ہے، لیکن یہ بہاؤ اندرونی طور پر پرانی مفروضات جو کہ سرپرستی کی مقدسیت پر مبنی تھی کا مظہر ہے کہ ان کا گرفت مزید نہیں اور جبکہ روایتی سیاست کی مشق انتخابی منظرنامے کے حلقوں میں ابھی تک چوٹی پر سوار ہے، یہ دوسرے تمام تضادات کے مقابلے میں ابھی تک پریشان کن ہے۔

ںظریے کی بحالی

نئی بڑھتی ہوئی سیاسی اداکاروں کے درمیان آیڈییشنل تقسیمات واضح ہو رہی ہے۔ مثال کے طور انتہا پسندی کی شدت پر غور کریں۔ یہ ایک ایسا مسلہ ہے جس نے امریکہ کی سالمیت کے بارے میں مباحثوں کو جنم دیا ہے، اسلام کی ریاست اور معاشرے میں مقام، عسکری قیادت کا کردار اور کیا کوئی جہادیوں کے ساتھ مزاکرات یا جنگ کر سکتا ہے۔  بحث ابھی تک دردناک حد تک سہل پسندانہ رہی ہے، لیکن یہ قابل توجہ ہے کہ سیاسی پارٹیز کا مقام اس مسلے پر واضح طور پر قابل فہم ہے، کہی بار ان پارٹیوں کی جانی نقصان پر، مثال کے طور پر اے-این-پی کی اپنی نظریاتی اور مادی حالت کے وجہ سے طالبان کی مخالفت، اسکا نقطہ نظر تکثیری انداز میں بنیادی طور پر شدید مقابلہ اور پارٹی کا عوامی سہارا جو کہ سر پرستی پر مبنی انتخابی سوچ ہ بچار سے مختلف ہے

اس اثنا میں، پی ٹی آئی کی شہری عوامیت تکثیری انداز میں سیاسی تزکرے کے نشونما کی صورت گری کر رہی ہے، بلخصوص پنجاب می، حالانکہ پارٹی نے جیسے جیسے الیکشن قریب آرہی ہے دوسرے روایتی سیاسی حلقوں کے ساتھ تعلقات بنائی ہوئی ہے۔ اسکی بنیادی کشش واقعی اس کے مدعییوں میں ماضی کے سیاسی طرز کی توڑ پھوڑ ہے۔  یہ معنی خیز ہے کہ پی ٹی آئی نے بڑی حد تک  سوشل میڈیا اور فنیات پر انحصار کیا ہے، سماجی اقتصادی مختلف النوعیت حمایت کی بنیاد ٰآئی سی ٹی اور سوشل میڈیا کے افقی انضمام  کی خلا کے استمعال کی عکاسی کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا میں اثر کا اندازہ دوسری جماعتوں کی سوشل میڈیا پر رد عمل سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے، جو کہ پچھلے مہینوں میں شروع ہواہے۔

یہ پارٹی بڑھتی ہوئی خرد برد کا اخلاق پرستانہ طور پر تنقیدی رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے بہت سے پر خلوص حمایتی اکھٹے کر لیے ہیں جو بورڈ ایگریمینٹ کی بنیاد پر پادٹی کو ترجیع دے رہی ہے بجاۓ کہ کسی اور پارٹی کو بے ضابطہ ، توقعات کے جھا نسے میں آک ترجیع دیں۔ حالانکہ یہ بات اس سے پہلے بھی کہی سیاسی اور عسکری اداکاروں نے ماضی میں استعمال کی ہے، لیکن پی ٹی آئی نے اس نعرے کو تبدیلی کی علامت بنانے میں کافی حد تک کامیابی ھاصل کی ہے۔ یہ شاید ڈھانچے کی تبدیلی کے پروگرام سے دور ہو اور یہ تضادات باضابطہ گندے سیاسی تزکرے کے اندر محصورہے لیکن پی ٹی آئی کی اخلاق پرستی اور اینٹی کرپشن ہونے کے آثار نظر آتے ہیں، پارٹی کی انتخابی کامیابی سے لامعلق، تبدیلی کےاثرانداز آیڈییشنل کینوس اور انصاف جس نے ابھی سیاسی قوت تعمیر کی ہے اور قابل غور نظریاتی مقابلے کے  امکانات آنے والی سالوں میں امید کی جاسکتی ہے۔

آگے کیاہوسکتاہے؟

دوسری بنیادی بحثیں- اقتصادیات کی بنیاد سے لے کر عورتوں کے لیے ماحول اور مزدوروں کے حقوق۔  ابھی تک جو کہ آسانی سے قابل دید ہے انتخابی منظر نامے سے غیر حاضر ہے۔  تاہم شراکتی سیاسی فیصلہ سازی کے لیے جگہ بڑھتی ہے، تضاد کے بنیادی ذرائع کو مکمل طور پر سیاسی  تزکرے میں خود کو اظہار کرنے کے امکانات ہیں۔

70 اور 60 کے دہائیوں کی نظریاتی سیاست کے امکانات بہت کم ہے، اور نہ ہی اس کی زیادہ اداسین تڑپ ہے کہ ماضی کو مکمل ظاہر کی جاۓ۔ نئی نظریاتی تقسیم بندی کو ابھی پوری طرح شکل میں آنا ہے، اور امکان ہے کہ مختلف محور ادادے کےمختلف ماڈیلیٹیز پر ہو۔  ان پر بھی یہ امکان ہے کہ وہ زیادہ  متفاوت طبقات کی سیٹ میں پہلے سے زیادہ مبتلا ہونگے۔  اور اگرادارہ سازی کا مرحلہ جمہوری اصولوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے گامزن رہا، ماضی قریب کی بنیادی تبدیلیاں آہستہ آہستہ سیاسی ڈومین میں اپنے آپکو مقابلہ کن انداز میں نمایا کرے گی۔  پیچیدہ  دنیاوی نظر معاشرے کی تعمیر پر۔

لاتعلق از بے ملاوٹ مفروضات کہ  مجموعی پسند کمیونٹیزووٹ  سرپرستی کی طاقت کی غلامی میں ووٹ دے رہے ہیں۔ریاست کو سیاسی فہمیدگی کی نظر سے  مزید درست نہیں سمجھا جا سکتا

دلیل ہہ نہیں کہ سیاسی انقلابی تبادلے نے پاکستان میں جنم لیا ہے، یا یہ ہونے والا ہو، زیادہ تر پیمائش کے مطابق۔ سیاسی ادارے پاکستان میس ناکافی حد تک نمائیندگی کرتی ہیں۔ اقتصادی معاشرتی ماس ایکسکلیوژن کے ڈھانچے کو برقرار اور مذہبی، فرقہ واریت، قومی امتیاز کے انسٹیٹوشنلائیزڈ کلاس کے خصوصیت  کو بچا لینا، بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ناقابل تسنیخ اور اقتصادی معاشرتی منقلب قوتیں بھی حرکت میں ہیں، کبھی کبھار ردعمل کی قوتوں سے براہراست مقابلہ کرتی ہیں۔

یہاں پر ہمیں اس بار کی انتخابی مشق کی اہمیت نظر آتی ہے: کہ شاید یہ سماج میں موجود مختلف سماجی اور سیاسی گروہوں کے درمیان ایک نئے عمرانی معائدہ کی بنیاد ڈال دے، جس میں جبر کے بجائے پسند، اور جبری ممانعت کے بجائی جمعی رواداری کی بنیادوں پر سیاست کی ازسرِنو تشکیل ہو۔

 عمار رشید اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سکالر اورمحقق ہیں جونظریئہ سیاسیات، پاپولزم، اور سماجی تحریکوں پر کام کرتے ہیں۔ 

Tags: , , ,

2 Responses to

حمایت کی سیاست

  1. Politics after Patronage | Tanqeed on May 2013 at 3:59 AM

    […] Issue IV | اردو […]

  2. […] اس ہفتے تنقید جائزہ لے گا۔۔ اگلے چار دنوں میں پہلی بار پاکستان ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری میں منتقل ہو گا۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے بم دھماکوں اور سیاسی جماعتوں کی آپس کی تکرار سے انتخابات اب تک متنازع رہے ہیں، جبکہ زیادہ تر کوریج امیدواروں کو دی جا رہی ہے، تنقید یہ جامع سوال اٹھاتا ہے کہ: بلوچستان کا کیا درجہ کیا حثییت ہے؟ ابھی بھی حمائتی سیاست ہے یا نہیں؟ […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *