پاکستان کے لوگوں کی تاریحخ کی جانب یاداشت

4 شمارہ | English

Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series
Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series 

پاکستان کے لوگوں کی تاریخ جمہوری سیاست میں لبرل دانشوروں کی جانب سے ادا کردہ رکاوٹوں کی وجہ سمجھنے کا تقاضہ کرتی ہے۔

پاکستان کے تاریخی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور امید ہے کہ پہلی بار اقتدار کی منتقلی ایک سویلین حکومت سے اگلی سویلین حکومت کو ہو گی۔ انتخابات کی گہمہ گہمی نے پورے ملک کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ان انتخابات کی تاریخی نوعیت کے باعث جوش و خروش تشدد اور نقاب پوش مسلح افراد کی وجہ سے خراب ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ پی ٹی آئی کی قابل مدمقابل کے طور پر حکومتی طاقت کے لئے آمد اور مُسرف جرنیل اور اس کی گرفتاری نے جمہوریت کی نوعیت اور قابلِ عمل ہونے کے بارے میں پاکستان میں ایک پریشان کن نوَشرقیہ بحث پیدا کر دی ہے۔

پاکستان جمہوریت کے لیے تیار ہے یا نہیں ایسے دلائل دہایئوں سے چل رہے ہیں۔ تازہ ترین مثال برٹش کونسل کا سروے ہے جو یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان جمہوریت سے بدزن تھے۔

 نقلی مقصد کی وضاحتیں کہ پاکستان میں فوجی آمریت کی طویل تاریخ رہی ہے جو کہ حقیقی جواز نہیں ہے: پاکستانی حدود کی کئی فتوحات میں ایک لمبی تاریخ ہے جسکی وجہ سے یہاں کے باشندوں میں اقتدار کی طرف رحجان زیادہ ہے، وہ جمہوریت چھوڑ کر آمریت کے لئے تیار ہیں۔ یہ کمزور وضاحت اس مفروضے پر انحصار کرتی ہے کہ اس خطے میں مزاحمت کی کوئی تاریخ نہیں ہے جو کہ واضح طور پر ایک غلط دعوٰی ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو صرف پنجاب تک محدود کریں جو کہ فوجی قوت کا مرکز ہے، ہمیں بھرپور مزاحمتی تاریخ ملے گی، مغل شہنشاہ اکبر کے خلاف بغاوت کرنے والے دولہا بھٹی سے لے کر صوفی شاعر بُلّے شاہ جو کبھی طاقت کے سامنے سچ بولنے سے گبھرائے نہیں، سامراج مخالف نوجوان اور مارکسی انقلاب پسند بھگت سنگھ سے انجمن مزارینِ پنجاب تک جو کہ اٹھ کھڑے ہوئے وہ پاکستان کی افواج سے کسی صورت کم نہیں۔

یہ خیال کے پاکستانی عوام خود آمریت اپنے لئے لے کر آئے ہیں (جسے متوسط طبقہ جمہوری جنگجو بن کر واپس دھکیل رہا ہے) ملک کی مختصر تاریخ میں مزاحمت اور خود ارادیت کی ابھرنے والی کئی تحریکیں، حکمراں اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ اور ہئرا پھیری کی دستاویزی کوششیں، ایسی کئی تحریکوں کو کچلنے میں امریکہ کا کردار اور ناقابلِتسخیر مشکلات کا سامنا کرنے والی پاکستانی قوم ان ثبوتوں کے برعکس نظر آتے ہیں۔

مزاحمت اور خود ارادیت کی یہ داستانیں ہماری قومی سوچ کا حصؔہ نہیں ہیں۔ یہ سوشلسٹ اور مارکسی فلسفے کی ریاست اور معاشرے کو ہمارے سیاسی تخیل سے باہر نکالنے کی براہِ راست کوششوں کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں لوگوں کی تاریخ پاکستان میں جمہوریت میں لبرل دانشوروں کے نمایاں ارکان کی طرف سے ملک کی تاریخ کے آغاز سے ہی رکاوٹ اور جمہوری سیاست کو نقصان پینچانے والوں کے کردار کا تزکرہ توقع کرتی ہے۔

مرحوم سلمان تاثیر کے والد ایم۔ڈی۔تاثیر کی مثال لیں، ایک سینئر سرکاری ملازم اور بااثر لبرل دانشور۔ ایم۔ڈی۔تاثیر آزادی کے بعد کے دور میں ایک قوت تصوَر کیے جاتے تھے۔ اَنہوں نے سوشلسٹ اور سامراج مخالف پروگریسو رائٹر ایسوسی ایشن کو چھوڑ دیا جب کئی پاکستانی اردو نگاروں سے ریاست کے حق میں اور عوام مخالف سیاست پر لکھنے کا مطالبہ کیاگیا۔  پی۔ڈبلیو۔اے کے ارکان بھی آمرانہ حکمران جماعت مسلم لیگ کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ تاثیر نے محمد حسن عسکری جو کہ ایک اہم لبرل دانشور اور اس دور کی ادبی شخصیت تھے، کے ساتھ ترقی پسند مصنفین کو نشانہ بنایا۔ ان کی ریاست سے وفاداری پر سوال اٹھائے اور یہاں تک کہ بغاوت کا الزام بھی لگایا اور اصرار کرتے رہے کہ ریاست ان کے خلاف کاروائی کرے۔ ان کاششوں کی وجہ سے ریاست نے پی۔ڈبلیو۔اے کے ارکان کو ہراساں کیا اور گرفتار بھی کیا اور امریکہ کے ساتھ سرد جنگ کے معاہدے کے وقت آخر کار 1954 میں پابندی لگا دی۔

1960 میں اے۔کے۔بروہی اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس ایس۔اے۔رحمان جیسے لبرل دانشوروں نے بھی جمہوری سیاست کو کمزور کرنے میں تھوڑا کردار ادا کیا۔ اس وقت ان کا کام ایوب خان کے خلاف بائیں جانب کی تحریک کی قوت کی وجہ سے زیادہ ضروری اور مشکل تھا۔ یہ تحریک حکمران اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی مین اسٹریم میں مارکسزم اور سوشل ازم کو کامیابی سے لائی تھی۔ تاہم، جائیداد رکھنے والوں کے مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں لبرل دانشور اپنی ذمہ داری سے نہیں رکے۔ یہ بحث انہوں نے جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کر ہر فورم پر شروع کی کہ اسلام اور سوشل ازم متضاد تھے اور سوشل ازم عام پاکستانیوں کو کبھی قبول نہیں ہو گا۔ تعجب کی بات ہے کہ عام پاکستانی اس سے بالکل الگ سوچ رہے تھے۔ ہماری اور ان کی بد قسمتی کہ اس وقت مغربی پاکستان میں ان کے مفادات کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت صرف ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں ہی نکلی۔ یہ ان کے لئے خبر ہو سکتی ہے جو لبرل پنڈتوں کو سنتے بڑے ہوئے ہیں جنہوں نے 1960 کی بغاوت کو پیپلز پارٹی اور بھٹو کی سوشل ڈیموکریٹک کی ایک فضیلت کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ وہ بایئں بازو اور بنگالیوں کے مخلاف لیڈر تھا۔

آج یہ عام پاکستانیوں کی طرف زیادہ عناد نہیں رکھتا جو خود کو دکھانے کے لئے اشرفیہ اور درمیانے طبقے کے لوگوں کے بہت قریب ہے۔ پاکستان میں جمہوری تبدیلی کے عمل کے بارے میں بحث اکثر لالچی سیاسی اشرفیہ سے ان پڑھ عوام کی طرف ہو جاتی ہے، جن کو جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ ان غریب ان پڑھ لوگوں میں اپنے مفادات لے لئے عقلی تفہیم ہو سکتی ہے اور رسمی سیاسی نظام کے اندر رکاوٹوں میں وہ عقلی انتخاب کر سکتے ہیں، جس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جیسے اشرفیہ طبقہ اپنے ذاتی مفادات کو دیکھتے ہوئے جمود نہیں رکھ سکتا تو متوسط شہری طبقے کے ڈیموکریٹ بھی یہ نہیں کر سکتے۔

اس کی بجائے احساسات کی سرپرستی یا مبینہ طور پر حقیقت پسندی میں آزاد خیال شامل ہوتے ہیں جو آخر کار ان تحریکوں کو حقیقی سیاسی کھلاڑیوں کے طور پر مسترد کرتے ہیں۔ یہ ردِعمل اشرفیہ سیاسی تخیل کی پیداوار ہے جو پاکستان کی غریب اکثریت اور حقِ رائے دہی سے محروم لوگوں کوآبادی کے مسئلے کو اچھالنے یا بغاوت کے لیے کھڑا کرنے میں ہی استعمال کرتے ہیں۔

**

اگر ہم حقیقی جمہوریت میں دلچسپی رکھتےہیں تو ہمیں اس چیز سے باہر نکلنا ہو گا کہ یہ انتخابات نظام کا ہی حصہ ہیں یا نہیں۔ ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ جمہوریت کے سیاسی نظام کے طور پر سرمایاکاری میں کیا داؤ پر لگا ہے۔ جمہوریت پر غور کرنے کا مطلب سیاسی نمائندگی کے دنیا کے بالغوں کی فرنچائز کے ذریعے انتخابات پر مبنی ہو سکتا ہے جو اختتام کے لئے ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔ آخر میں ایسا سیاسی نظام بنے گا جو کمزور شہریوں کے مفادات کی حفاظت اور نمائندگی کرے گا جو کہ آبادی کی اکثریت ہیں۔ یہ یقینآ ہمارے معاشرے کے موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام میں ممکن نہیں ہے۔ حقیقی جمہوریت کو معاشرے میں شامل ہونے کے لئے اہم نظامی تبدیلیاں درکار ہیں۔ زمینی اصلاحات کی شاید سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

اسکا یہ بھی مطلب ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو جمہوریت سے ہٹا کر جمہوریت کے عمل کی طرف کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی خلاء کو اقتصادی مفاد اور ضروریات اور سیاسی حقِ رائے دہی سے محروم افراد کی مسلسل کوشش کے جمہوری عمل پر اگر ہم روشنی ڈالیں تو پھر ہم پاکستان کی تاریخ کو الگ نظر سے دیکھنا شروع کریں گے۔

فوجی آمریت کے خلاف تحریکیں اہم رہی ہیں لیکن وہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے واحد نہیں رہیں۔ فوج کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں تحریکوں کو کلاس کے لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ایوب خان کے خلاف تحریک، مشرف کے خلاف تحریک سے مختلف تھی۔ ایوب کے خلاف بائیں بازو کے محنت کش لوگ اور کسان تھے جبکہ مشرف کے خلاف پیشہ ورانہ متوسط طبقے کے لوگ تھے۔

جمہوریت کو ایک عمل کے طور پر صیح طرح سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمیں رسمی جمہوریت سے آگے اصلی جمہوریت کی طرف لے کر جاتی ہے، وہ مقصد جو جمود کو ختم کیے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جمود صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ یا جمہوری اتحاد کے خلاف نہیں ہے (اگرچہ کوئی جمہوری کامیابی اسکی کمزوریوں کو پکڑے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی) یہ ہمارا سماجی نظام ہے جو لوگوں کی اکثریت کو جابرانہ اقتصادی اور سماجی نظام کی غلامی میں رکھتا ہے۔ موجودہ جمہوری منتقلی اس مسئلے کو بیان نہیں کرتی۔ پھر بھی جو ہم اشارا کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سیاسی اشرفیہ پپر اعتماد کرتے ہیں اور درمیانے طبقے کے وسیع اکثریت کی آبادی جو کہ کم درجہ ماتہت لوگوں کی حثیت رکھتے ہیں ان کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔

شکر ہے کہ عام پاکستانیوں نے اشرفیہ اور درمیانے طبقے پر کم اعتماد کیا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اصل جمہوری تحریکوں کے لئے ہمیں اپنے آپ کو یاد دہانی کروانی پڑتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو نو آبادیاتی نظام کے بعد کی قومی ریاست سمجھتے ہیں اور عصرِحاضر سے سیکھتے ہیں کہ ہم میں اپنی سیاست اور معاشرے کو سچائی اور مضبوط جمہوریت کی طرف لے جانے کی صلاحیت ہے۔

ضلع اوکاڑہ میں انجمن مزارینِ پنجاب بے زمین کسانوں کی ایک مضبوط تحریک ہے۔ جو کہ 2000 میں فوج کی نام نہاد فوجی فارموں سے ان کو بے دخل کرنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کے لیے قائم کی گئی جن پر کسانوں نے نسلوں سے کام کیا تھا۔ اس تحریک نے فوج کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور انہوں نے اپنی زمین کے لئے تحریک جاری رکھی۔ اسکے علاوہ یہ خیرت انگیز بات ہے کہ تحریک مسلمانوں اور عسائیوں پر مشتمل ہے جس میں عورتوں نے شروع سے ہی بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ فوج کی طرف سع ہراساں کیے جانے جس میں قتل کی جھوٹی ایف آئی آر بھی شامل ہیں اور اعترافی خطوط بھی جن سے اسے تقسیم کیا جا سکے اور کچھ منتخب افراد کو پیسہ دے کر بھی تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اس کے باوجود یہ ایک دہائی سے زیادہ چلی۔

ہم اس حقیقت کو سچ مان سکتے ہیں کہ چاہے لوگوں کی تحریک لبرل دانشوروں اور شہری متوسط طبقے میں اپنی اہمیت کھو چکی ہو لیکن یہ حقیقت میں کمزور نہیں ہے۔ ان تحریکوں جیسے کہ 1960 کی محنت کش اور کسان تحریک تھی، ہشتنگر میں کسان بغاوت اور اب اے۔ایم۔پی کہ مسائل کی سنگینی اور چیلنجز کو کوئی سمجھ نہیں پایا۔ اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار پر مکمل دعوے جیسے یہ بغیر کسی وجہ کہ نہیں تھا کہ انہوں نے ان تحریکوں کو کچلنے اور ہماری تاریخ سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ ان تحریکوں سے ہی ہے کہ ہم معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کریں۔

سعدیہ طور نیو یارک کی سٹی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *