جب تعداد زیادہ اہم ہو

4 شمارہEnglish 

Artist: Zahra Malkan | Dadu 1960 series

Artist: Zahra Malkan | Dadu 1960 series

 

پاکستان کو تصور کی اشد ضرورت ہے، اس کے بدلے ریاستی نظریہ ملتا ہے جس نے ملک کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ 11 مئ کے انتخابات نے حالات کو بدتر بنا دیا ہے۔ ملک کو تقسیم کرنے والی فالٹ لائنز کو ختم کرنے کے ارادے سے کوئی پارٹی نہیں آئی جیسے کہ: صوبوں اور مرکز کے درمیان اور صوبوں کے مابین فرق، مسلم اور غیر مسلم پاکستانیوں کے درمیان (اور مسلم پاکستانیوں کے درمیان) اور امیر غریب کے درمیان فرق (یا امیروں کے مابین)۔

یہ اس انتخابی مہم میں لگائے جانے والے نعرے نہیں ہیں، یہ انتخابی نعروں کی حدود میں نہیں بلکہ خیالات کے دائرے میں آتے ہیں۔

ایک طرف وفاق جو کہ بلوچستان کے تنازعہ کا مرکز ہے اور سندھ میں سیاسی پریشانی کی بنیادی وجہ ہے۔ پاکستانی سیاست میں اسکی اہمیت کے باوجود انتخابات میں لڑنے والی اہم جماعتوں کے مابین جغرافیائی اور سیاسی عدم توازن پر توجہ کیلئے کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہے۔ آیئن میں اٹھارویں ترمیم مرکز اور صوبوں کے درمیان واضح فرق کو سلجھانے کے لیے ایک تاریخی کوشش تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بعد میں ہونے والے واقعات میں گم ہو گیا ہے۔ پنجاب کی شکایات کے بعد ترمیم کے چیمپینز کو دفاعی حالات میں ڈال دیا گیا ہےکی آئینی تبدیلیاں باقی صوبوں کے مقابلے میں یہاں زیادہ لوڈشیڈنگ کے لئے عذر کے طور پر پیش کیا جا رہی ہیں۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور عدلیہ نے تعلیم جیسے امور پر مرکزیت کے لئے مخصوص سطح پر بے چینی کا اظہار کیا ہے۔

ترامیم کے اثرات بھی غیر متوازی رہے ہیں، جبکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ قدرتی وسائل پر ملکیت کا دعوئ کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ قدرتی اور پن بجلی سمیت وفاقی اداروں کے کردار کے بارے میں ایسے بہت سے لا جواب سوال ہیں جیسے کہ واپڈا اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن۔ بلوچستان کا معاملہ اور بھی عجیب ہے۔ صوبائی حکومت میں صوبے کے قدرتی وسائل پر ملکیت کا دعوئ کرنے کی سکت نہیں ہے۔ فوج اور نیم فوجی فرنٹئر کانسٹبلری سمیت وفاقی افواج کے حمایت کے بغیر وہ انہیں تلاش بھی نہیں کر سکتے۔ کسی بھی پارٹی نے ان سوالات کو انتخابات میں اٹھایا ہے؟ کیا میڈیا ان پر کوئی توجہ دے رہا ہے؟ کیا سول سوسائیٹی ان جماعتوں اور امیدواروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ انتخابی ایجنڈے میں ان مسائل کا جواب بھی شامل کریں؟ ان سب سوالات کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے۔

دوسری طرف بعض جماعتیں اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ بیان کرنے کی بجائے اسے “نسلی ووٹ” کہہ کر مسئلے کو اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے ابھار رہی ہیں۔ ایک متوازن فیڈریشن کا خیال ( ایک غیر متوازن کے برعکس) انتخابی بحث کا اہم حصہ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ صاف ضاہر ہے کہ مسئلہ سیاسی مسئلے پر قابو پانے کی بجائے انتخابی مقابلے میں ہر صوبے میں جیت اور ہار کے منشور سے دیکھا جاتا ہے۔

پاکستا نیوں کی تقسیم نظر انداز:
جب بات پاکستا ن میں مسلم لور غیر مسلموں کی تعلقات کی ہو تو نمایاں پارٹیوں کی سوچ ساکت نظر آتی ہے۔ تفریقی قوانین قانونی کتابوں تک ہی رہے گے۔ مختلف عقائدسے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے مابین شرعی اور آئینی بخث کے لیے بالکل بھی سیاسی جگہ نہیں۔ انتخابی سیاست میں غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے نیوز رپورٹرز اور سول سو سائٹی ایڈوسی مہم موجود ہے۔مثال کے طور پر عام نشستوں کے لیے پارٹیوں کی نامزدگیوں میں اضافے کے ذریعے،لیکن ریاست کے آئین،اسکی نوعیت اورقوانین غیر مسلم پاکستانیوں کو سیاسی،آیئنی اور انتخابی لخاظ سے بڑا نقصان ہے

یہی قوانین اکثر غیر مسلموں کے خلاف سنگین تشدد کی بنیادی وجوہات رہے ہیں۔ تہذیبی اعتدال پسندی کی رو سے مسلم پاکستانیوں کے مابین تعلیم میں جنسی عدم توازن،بے روزگاری اور سیاسی حلیہ کو کسی سیاسی پارٹی نے للکارنے یا بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک کے مختلف حصوں میں عورتوں کو الیکشن لڑنے اور ووٹ دینے سے روکنے کے لیے ایک جنون سا پایا جاتا ہے لیکن شاید سیاسی پارٹیاں پہلے سے ہی نتیجے پر غور کر چکی ہیں کہ جنسی توازن جیسے “ثقاقتی طور پر حساس” موضوع کو اٹھانے سے وہ اپنے ووٹ کھو سکتے ہیں۔دوسری بین مسلم تقسیم ،مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ہے۔اس معاملے پر گفتگو ریاست کے کھلے عام سنّی دیو بندی تعصب پر نہیں بلکہ تشدد اور ہلاکتوں کی تعداد پر ہے ۔نہ تو سیاسی پارٹیوں اور نہ ہی انتخابی مرحلے کے تماشائیوں نے فرقہ واریت کے سوال کو مذہبی نوعیت کے اہم ضمنی پیداوار کے طور پر اٹھایا۔فرقی تشدد کو سخت انتظامیہ اور عدالتی اقدام کے تخت بہت کم عرصے میں کم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ریاست کی بنیادی نوعیت نا قابل اختلاف رہی تو یہ اعتماد لمبے عرصے میں بھی ختم نہیں ہو گا۔

۱۹۹۰ء میں جب پنچاب حکومت نے فرقی مقاصد کے خلاف اقدام اٹھائے تو کچھ سالوں کے لیے فرقی تشدد کو چھوڑ دیا گیا لیکن جب تشدد کے پیچھے بنیادی وجوہات کو نظر انداذ کیا گیا تو فرقی حملوں کا قہر دوبارہ شروع ہو گیا۔

ہمیں معاشیات پر ایک گہرے بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔
معاشیات کی کل بحث اس بات پر ہو گی کہ کون زیادہ ٹیکس بڑھائے گا،زیادہ سرمایہ کاری لائے گا،زیادہ نوکریاں پیدا کرے گا اور ہیکل اساسی کے خو بصورت حصے بنائے گا۔بے حد تڑچھی معاشیات کی نوعیت جو کہ شہروں کو گاؤں اور ایک خطے کو دوسرے خطے پر ترجیع دیتی ہے جبکہ مارکیٹ اکانومی کے غلط اطراف کو سماجی خفاظت نیٹ ورکز بھی پیش نہیں کر رہی بلکہ الیکشن میں حصہ لینے والوں کے مابین باعث گفتگو بھی نہیں سمجھا جاتاہ۔ ملک میں کئی ڈیویژن کے دومیان دولت کی منصفانہ تقنیم ایک عدد چیلنج ہے جسے کسی بھی پارٹی نے اپنی سیاسی مہم میں شامل نہیں کیا۔

یہ کہنا آسان ہے کہ سیاست مقامی اور ذاتی مسائل کا نام ہے۔بڑی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔وہ لوگ جن کے پاس بنیادی سہولتیں نہیں ہیں ان سے ریاست کی نوعیت کی تبدیلی یا نظام کے دوبارہ تعمیر کے عام سے خیال کی بنیاد پر ووٹ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ووٹرز امیدوار یا پارٹی کو تب ہی ووٹ کرتے ہیں جب انھیں لگتا ہے کہ اس سے ان کی ذاتی حالات میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

لیکن یہی سیاسی قیادت کے لئے چیلنج ہوتا ہے۔جب ذولفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی مہم کے دوران جمہوریت ،اشتراکیت اور لوگوں کے طاقت کے منبع ہونے کے نعرے لگائے تو یہ انتخابات میں ہر ایک کے لیے مخص خالی خیالات تھے۔ پہلا ریاست کی ساخت کے بارے میں تھا،دوسرا معاشیات کی ساخت اور آخری تہذیب پر توجہ کے بارے میں تھا جس نے خود حاکمی کو برابری پر ترجیع دی۔لیکن تب بھٹو ان خیالات کو ایک پروگرام کے ساتھ یکجا کرنے میں کامیاب رہا جس نے کافی مقامی اور ذاتی درجے پر ووٹروں کو اپیل کیا۔

جب پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ن) ۱۹۹۰ء میں سیاسی انتخابات لڑ رہے تھے تو ان کی سیاست کا انحصار تین بنیادی مسئلوں پر تھا۔کیا عورت حکومت کی سربراہ بن سکتی ہے( ایک تہذیبی سوال)؟ کیا پاکستان کو انڈیا کا دوست بننا چاہیئے(اساسی طور پر ریاست کو ساخت کے بارے میں سوال)؟ اور پنجاب کو باقیہ وفاق پر حکومت کرنی چا ہیئے( ریاست کے وفاقی یا وحدانی ڈھانچے کے متعلق ایک مسئلہ)؟ تاہم دونوں جماعتوں نے ان نظر یاتی سوالات کو اس طرح واضح کیا کہ یہ ان کی مہم کا اہم حصہ بن گئے۔ اور کامیابی کے درجوں کے ساتھ لاکھوں ووٹروں کو راغب کیا۔

2000ء کے شروع میں جمہوریت بمقابلہ فوجی حکومت جتنا آسان سوال تھا اتنا ہی ضروری بھی۔ تب سے عام تعداد کھیل سیاست کو اس حد تک نیچے لے آیا ہے کہ ریاست اور معاشرے کی نوعیت کے بارے میں میکرو سطح کی سیاست اور نظریاتی بحث کو طاق رکھ دیا گیا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ریاست اور معاشرہ جس بحران میں گھرے ہیں اسے حل کیا؟ 2013ء کی انتخابی مہم میں ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ریاست اور معاشرے کے بڑھتی ہوئی تقسیم کو کسی تکلیف دینے والی بیماری کی طرح نمائیاں کیا ہے۔ ریاست کی مزہبی نوعیت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ غیر مسلم پاکستانی، خواتین اور کچھ خاص مسلم فرقوں سے تعلق رکھنے والے کم اہمیت رکھتے ہیں۔ نسلی سیاست، ریاست اور معاشرے کی نسلی تنظیمِ نوع، علاقائی اور صوبائی خودمختاری کے مسائل کے لئے ایک حل کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

وہ لوگ جو “تبدیلی”، “نیا پاکستان”  اور “انقلاب” کی بات کرتے ہیں، ان مقرر کردہ حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ لہذا، 11 مئی اہم خیالات پر خصوصی توجہ دینے اور پاکستانی معاشرے کی اس سمت کا تعین جاری رکھنے کے مقابلے مارجن کو ٹھیک کرنے میں ایک چھوٹی تبدیلی ہے۔

بنیادی طور پر یہ انتخابات تعداد کے بارے میں ہیں۔ کس نے کتنے غیر مسلم یا خواتین امیدوار نامزد کیے ہیں؟ کون کتنا اضافی بجٹ کس شعبےیا گروپ کے لئے رکھے گا؟ کون ٹیکس بڑھا کر آمدنی میں اضافہ کرے گا؟ کون کرپشن روکے گا؛ اور توانائی کی قلت ختم کرنے میں کونسی جماعت کتنا وقت لے گی؟ 2013ء کے انتخابات کے نتائج میں خیالات پر بحث کی جانب کوئی راہ ہموار نظر نہیں آ رہی۔ بنیادی سوالوں کو بیان کرنے میں ناکامی سیاست کے جسم کو کمزور کرنے کی واضح علامت ہے۔

محمد بدر عالم ہیرالڈ میگزین کے ایڈیٹر ہیں

 

One Response to

جب تعداد زیادہ اہم ہو

  1. When Numbers Matter More | Tanqeed on May 2013 at 4:25 AM

    […] Issue IV | اردو […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *