Burying us Alive in Bara

English | اردو

ہمیں زندہ مت دفناؤ

تحریر: راشد خان اورکزئی

اب وقت آگیا ہے کی فوج اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے اور ہمیں بتائے کے آخر ہو کیا رہا ہے۔ماضی کی غلطیاں قبول کر کے ان کا ازالہ نہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔

لاشیں پندرہ ہوں اٹھارہ یا بتیس۔ گنتی جو بھی ہو موت کے اس کھیل نے سب کو وحشت زدہ کر دیا ہے۔ کسی مقصد کے حصول کے لئے جان دیناقابلِ قبول ہے۔ پر ان اموات سے کا کیا مقصد ؟ ان سے کیا حاصل؟ کب تک یہ لاشیں گرتی رہیں گی؟ کب تک یہ سزا ہم بھگتتے رہیں گے؟ ہے کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب ؟

جب امریکہ یابھارت ہم پر فائرنگ کرے تو پوراپاکستان اور خاص طور پر شہر ی لوگ خوب واویلا مچاتے ہیں۔ پر جب ہماری اپنی فوج ہمارا ہی گلہ کاٹتی ہے تو کوئی شور نہیں مچاتا۔ خیبر ایجنسی میں باڑہ کے مقام پر سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لوگوں کا قتل ہو یا کوئٹہ میں انہی فورسز کے آشیرباد سے اسلامی شرپسندوں کا قتل و غارت، یہ وہ جھلکیاں ہیں جو ہمارا میڈیااس وقت نشر کرنے پرمجبور ہو گیا جب لوگ اپنے عزیزوں کے لاشیں سڑکوں پر بچھا کر بیٹھ گئے۔یہ سلسلہکوئٹہ میں ہزارہ قوم کے احتجاج سے شروع ہوا۔ اور قبائلی علاقوں کے پشتونوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیاہے۔ان دونوں کو قیادت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مگر سیاسی پارٹیاں اس وقت بھی اپنے مفادات کا سوچتے ہوئے تماشائی بنی ہوئی ہیں اور اس چکر میں ہیں کہ کسی طرح اس سیاسی اُبھار سے فائدہ اٹھایا جا ئے۔

ٖپاکستانی ریاست کو فاٹا کے لوگوں سے کوئی لگاؤ نہیں۔ اسے تو صرف امریکی ڈالروں کی فکر ہے۔اور فاٹا کو شرپسندوں کا گڑھ بنا کر، بتاکر مقصد صرف امریکی ٹٹو بن کر پیسے وصول کرنا ہے۔ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف یہ رائے ملتی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کو امن قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور جانے انجانے افغان طالبان اور پاکستان تحریکِ طالبان بھی اس سامراجی منصوبہ کا حصہ بن گئے ہیں۔

پاکستان کے دائیں بازواور اسلامی گروہوں کو تو فاٹا اور بلوچستان کے مسائل میں صرف غیر ملکی ہاتھ نظر آتا ہے۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ۲۰۰۲ سے فاٹا میں کیا ہو رہا ہے ۔ کئی صحافی اپنی جانیں کھو چکے ہیں ۔ ان کے لواحقین ریاستی ایجنسیوں کو ذمہ وار ٹھہراتے ہیں۔

باڑہ کا تاریخی پسِ منظر
باڑہ خیبر ایجنسی کی سب ڈویژن ہے ۔ پاکستانی حکومت اکثر یہاں کرفیو لگاتی رہتی ہے۔ ۲۰۰۳ سے یہاں حالات خراب ہونا شروع ہوئے ۔ اس سال آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک برکمبرخیل پشتون حاجی نامدار کی سعودی عرب سے واپسی ہوئی۔ حاجی نامدار نے وادی تیراہ میں امرباالمعروف تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ قت تھا جب ایک طرف تو امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا ہوا تھا اور دوسری طرف بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں دائیں بازوں کی مذہبی جماعتوں کے الحاقمتحدہ مجلسِ عمل کا راج تھا۔ حاجی نامدار کی تحریک کو باڑہ کے لوگوں میں بھی حمایت حاصل تھی۔

۲۰۰۴ میں حاجی نامدار نے کاربوغہ ہنگو سے تعلق رکھنے والے کٹردیوبندی مفتی منیر شیخکے ساتھ الحا ق کیا۔ مفتی منیر کو اس سے پہلے سنّی شیعہ فسادات کو فروغ دینے کے الزام میں کرم ایجنسی سے نکالا جا چکا تھا۔ (ان کے نظریات کا مختصر جائزہ لینے کے لئے یہاں کلک کریں
باڑہ میں پہلے تو مفتی منیر نے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے تنگ نظر اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ مگر جلد ہی حاجی نامدارسے اختلافات کی باعث مفتی منیر کو اس اتحاد کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں ملک دین خیل پشتونوں نے پناہ دی اور اس نے تبلیغ کا کام جاری رکھا۔ بریلویوں کے خلاف مفتی منیر کے پراپاگنڈہ کا مقابلہ کرنے کے لئے انصار الاسلام کے پیر سیف الرحمان نے ایک دوسرا ریڈیو سٹیشن کھول لیا ۔اس سب کھیل سے لوگوں میں نفرتیں بڑھیں اور انتشار پھیلا۔ آخر کار ایک مقامی جرگہ نے پولیٹیکل ایجنٹ کی معاونت سے ان دونوں ملاؤں کو باڑہ سے نکال دیا۔

پر جانے سے پہلے مفتی منیر نے باڑہ میں لشکرِاسلام کی بنیاد رکھ دی تھی۔ آجکل اس کا سربراہ منگل باغ ہے جو پہلے بس ڈرائیور تھا ۔ منگل باغ نے پہلے تو پیر سیف الرحمان کے پیروکاروں کو نشانہ بنا کر ان پر تشدد کیا۔ پھر اس نے پشاور سے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا۔ پیرسیف الرحمان کے ساتھیوں نے مولوی محبوب الحق سے مدد طلب کی اور اس طرح ان کی آپس میں جنگ چھڑ گئی۔ اس ساری گھمبیرتا کو شروع کرنے والاحاجی نامدار اپنے ہی گارڈ کے ہاتھوں مارا گیا۔ لیکن اس کی تنظیم اب بھی فعال وسرگرم ہے۔ ممکن ہے کہ اس تنظیم کو پاکستانی ریاست کی سرپرستی بھی حاصل ہو۔ اسی طرح لشکرِاسلامی کی مقابل تنظیم انصار الاسلام بھی سرگرم ہے۔

ریاستی نظام کی غیر موجودگی میں منگل باغ نے باڑہ بازار کے ارد گرد علاقے میں امن قائم کیا۔ جرائم پیشہ اور منشیات فروش گروہوں کا خاتمہ کیا۔ مقامی تنازعات کا فیصلہ بھی جلد ہو جاتا تھا۔ فاٹا میں شرپسند گروہوں کا یہی طور طریقہ نظر آتا ہے۔ یعنی پہلے ریاست کی کمی کو پورا کرو اور پھر حیوانیت اور قتل و غارت کا بازار سرگرم کر و۔ ہمیں بار بار یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

ملٹری نے کچھ آپریشن کئے اور پھرستمبر ۲۰۰۹ء کو باڑہ میں کرفیو لگا دیا۔ منگل باغ نے اس وقت تک سیکیورٹی فورسز سے ٹکر نہیں لی تھی مگر اب وہ بھی ریاست کے خلاف ہوگیا۔ اس کے بات قتل و غارت کا وہ سلسلہ شروع ہوا کے گنتی بھی نہیں۔ کچھ لوگ پشاور بھاگ گئے۔ پیچھے رہ جانے والے یا تو غریب تھے یا اس امید میں تھے کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں ۔

<<اگلہ صفحہ

Pages: 1 2 3 4

Tags: , , , , , ,

6 Responses to Burying us Alive in Bara

  1. […] in the dead of night and their relatives dead bodies forcibly taken from them. Rashid Khan Aurakzai delivers a devastating critique of the government and the Pakistan […]

  2. Irfan Khan on Feb 2013 at 5:19 AM

    Harsh and apt questions raised. Army has to answer the questions raised. Why has the army failed to curb militancy even after military operations being conducted for the last 9 years? Is the army complicit and is it incapable of protecting the citizens of the country?And if military operation is not the solution then find a durable solution to get rid of this menace and stop the blood shed of the Pukhtoons; who are as equal Pakistani’s as anybody else.

  3. mehrin on Feb 2013 at 1:33 PM

    your verbosity and the attempt at instigating the ethnic pride of pashtuns and thus leading them towards a wrong and biased thinking pattern will surely fulfill your purpose of degrading the military, the state and in a way go to the level of supporting the terrorists’ cause.you have yourself described how a one man show by a KSA returnee, turned into a potent terrorist force and ultimately led to armed battles between various factions…all with the help of the very locals of that area. People like you were actually sleeping at that time and now they are busy in distancing the masses from the military without cognizant of the facts. you have raised many issues in your article………in my opinion few of the reasons for the current situation are as follows: religious intolerance,the fact that pashtuns live and die for their traditions and religion has transformed into a tradition, madrassas from opposing religious factions functioning in the area, hosting of absconding terrorists from other militancy hit areas and Afganistan by the locals, failure of the govt in understanding the tribal culture and devising means to deal with it, bringing the military by the civil administration to operate in such areas once the situation has gone real bad, and so on……
    Bara Killing Facts:- It is a proven fact that militants have successfully blended with the locals of Bara and even have gained sympathies of many locals.When the killings took place, a simultaneous operation was in progress in the area.the troops present at Dogar post were out in the area fighting against the terrorists.In a preplanned way the terrorists killed and mutilated the innocent people and then moved their sympathizers to manipulate the grieved relatives to protest with the dead bodies of their dear ones ……the brazen faced terrorists just wanted an end to the military operation in Bara and have heartlessly used the sentiments of the locals to their own ends…………….I hope that will serve you and one more thing ….you have very wrongly portrayed the death of levies soldiers to create hatred in the locals and have not mentioned so many other such accidents which have happened to the Army,FC and Police.God help you…..

  4. Rashid Aurakzai on Feb 2013 at 7:58 AM

    When was the last time you were in Peshawar or talked to any native from Bara, Mohmand, Bajaur, Orakzai or Waziristan, Mehrin. Cool down and answer the questions instead of telling tales. Start from anywhere since 1947 and we shall prove how not the military is behind Pakistan erosion. Like it or not, there is only one party and one state in Pakistan and that it the military.

    Why did the military let militant close road to Parachinar for more than three years for Shias, who had fought bravely against the TTP. The same roads were open for the military itself and it has a cantonment in Parachinar as well. Bibi, Baat niklay ggee tau pher dooor talak jaye ggee but I advise you read the last paragraph again. It’s not about blame game here. Today, the tribes are suffering, tomorrow it shall be Islamabad and Karachi and the next day it could be Lahore. Remember the story of the boy who called wolf.

  5. […] Source: http://www.tanqeed.org/2013/02/burying-us-alive-in-bara-rashid-khan-aurakzai/ […]

  6. […] Burying us Alive in Bara […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *