تنقید کی کوشش رہی ہے کہ دی گئی تحریر میرچنگیز خان جمالی کے استعمال کئے الفاظ سے متاقبت رکھے۔ آپ یہ انٹرویو حرف بہ حرف آڈیو فائل میں یہاں سن سکتے ہیں۔
میرچنگیز خان جمالی: میرا نام ہے میر چنگیز خان جمالی ہے اورمیرا تعلق جعفرآباد سے ہے۔ میرا حلقہ جو ہے جعفرآباد کم نصیرآباد ہے، این اے دو سو چھیاسٹھ(۲۶۶)۔
تنقید: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے فگرز کے مطابق تقریباََ پانچ سو لوگ فوت ہوگئے ہیں سیلاب کی وجہ سے۔ تقریباََ تین ہزار لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔ ۵۰ لاکھ لوگ متاثر ہوگئے ہیں پورے پاکستان میں۔ ان نمبروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ اور آپ کے مطابق اموات اور نقصانات کی صورتحال کیا ہے؟
میرچنگیز خان جمالی: میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں رجسٹرڈ جو چیزیں ہیں وہ میرا خیال میں ڈیڑھ دو سو کے لگ بھگ ہوئی ہیں۔ ویسے چونکہ ہمارا ڈیرہ بگٹی کا علاقہ بھی ٹچ کرتا تھا (یعنی سیلاب سیمتاثر ہوا تھا) تو اندازاََ ہے کہ پانچ چھ سو اموات ہیں۔ لیکن کئی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے رجسٹر نہیں ہو سکیں ۔ لیکن ہم فی الحال اسی کو شمار کرتے ہیں جو ڈیڑھ سو ہیں اور ساتھ ساتھ انجریز (زخمی لوگ) بھی ہوئی ہیں لیکن اتنی انجریز نہیں ہیں ۔ اور ہمارے ہاں مویشی کا بھی بہت نقصان ہوا ہے، گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اور باقی چیزیں جو ہے، فصلیں تھیں تیار فصل پیڈی کا جسکو کافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ چیزیں ہیں جی۔
تنقید: تو جو نمبرز این ڈی ایم اے کے ہیں ، وہ ذراآپ کو کم لگ رہے ہیں؟
میرچنگیز خان جمالی: نہیں کم تو نہیں لگ رہے پر مجھے یہ سمجھ آرہی ہے کہ شایدکسی وجوہات کی بنا پہ ہو کیس نہ رجسٹر ہوئے ہیں۔ یا پھر اس میں کئی قسم کے ڈپارٹمنٹ آجاتے ہیں۔ پھر لاشیں بھی اتنی ہوسکتا ہے کہ وہ دور دراز علاقہ میں ہیں۔ اور پھر وہ ٹرائبل سوسائٹی ہے کسی کی مرضی ہے کہ وہ رجسٹر کریں یا نہیں کریں۔ اور پھر اس کے بعد اگر ہیں بھی تو اس کے بڑے طریقہ کار ہیں۔ آپکو میڈیکل آفسرلے جانے پڑتے ہیں۔ پولیس شامل ہوتی ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں یہ چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے شاید وہ(اموات) زیادہ رجسٹر نہیں ہو سکی ہیں۔
تنقید: جو متاثرین ہیں سیلاب کے ان کا ابھی صورتحال کیا ہے آپکے علاقہ میں اور دوسرے علاقوں میں بھی اگر اُن کا آپکو پتہ ہے؟
میرچنگیز خان جمالی: ہاں جی ابھی میں سمجھتا ہوں کہ جعفرآباد کا ابھی بیس فیصد علاقہ جو ہے یا تیس فیصد کہ لیں۔ وہ وہاں ابھی تک چیزیں سٹل (معمول پر واپس)نہیں ہو پائیں۔ لیکن کافی جگہوں پر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آرہے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔ گھر تو انکے نہیں ہیں بس وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ تقریباََ کوئی ہمارے ہاں آٹھ لاکھ کے لگ بھگ کی آبادی، دونوں ڈسٹرکٹ کی وہ متاثر ہوئی ہے۔ اور ساڑھے چار لاکھ ایکڑ زمین پر فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔ تو ریلیف کی چیزیں تو این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے نے دی ہیں ۔ ساتھ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیاں بھی (کام) کر رہی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی چالیس ہزار سے لے کے ساٹھ ہزار ستر ہزار فیملیز (خاندانوں) کو اور بھی مدد چاہیئے۔ خاص طور پر ابھی سردی کا موسم ہے ۔ شلٹر ہیں، کمبل ہیں۔ پھر جو کاشتکار ہیں انکو گندم کا (بیج)اور کھاد چاہیئے یا آگے جا کے سورج مکھی کا بیج چاہیئے۔ تو اس میں حکومت مدد کرے تو میں سمجھتا ہوں ، اور ساتھ ساتھ لوگوں کی ڈیمانڈ ہے وطن کارڈ کی۔ اگر وطن کارڈ بھی ہو جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مزید کام بہتر ہو جائے گا۔
تنقید: آپ اگر ایڈ اور امداد کو دیکھیں بین الاقوامی تنظیموں سے ، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے سے، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ پورا کام کر سکے ہیں۔ زیادہ ان کو ڈونیٹ کرنا(عطیہ دینا) چاہیے۔ زیادہ بڑی سطح پر کام کرنا چاہیئے؟
میرچنگیز خان جمالی: ہاں جی میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ہمارے علاقہ کہ حساب سے بالکل مختلف تجربہ رہا ہے اور نقصانات ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کی این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو اور زیادہ بھی کام کرنا چاہیئے کیونکہ اس میں ڈیڑھ دو لاکھ فیمیلیز(خاندان) متاثر ہوئی ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک آدھے سے زیادہ فیمیلزایسی ہیں جن کو ابھی مدد درکار ہے۔ اور مزید یہ کہ یو این کی آرگنائزیشن سے بھی مدد لیا جائے اور اسکو مزیداین جی اوز کے ذریعے کریں جس کے بھی ذریعہ کریں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں مارچ اپریل تک تاکہ لوگ خریف کی فصل کے لئے تیار ہو جائیں۔
تنقید: آپ نے شلٹر اور فصلوں کی بات کی ہے۔ راشن اور دوائیوں کے بارے میں آپکا (کیا خیال ہے کہ) کیاصورتحال ہے؟
میرچنگیز خان جمالی: یہ جو پیچھے راشن کی جو مقدار ہے وہ تو صحیح دے رہے ہیں۔ تقریباََ چالیس کلوگرام کے لگ بھگ ۔ لیکن دوائیوں کی ابھی بہت ضرورت ہے اور خاص طور پرہپاٹائٹس کے لئے۔ کیونکہ پانی صاف نہ ہونے کی وجہ سے ہپاٹائٹس اے بی سی، اس کا مرض بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ تو اس چیز کو کنٹرول کرنے کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ اور صاف پانی کے لئے کوئی سسٹم جو ہے وہ کوئی کیا جائے۔ تو دوائیاں اور بھی درکار ہیں وہاں پے۔
تنقید: آپ اگر اس سیلاب کے بعد جو امداد یا عطیات آئے ہیں، یا نہیں آئے ہیں۔ وہ آپ ۲۰۱۰ کے سات موازنہ کریں تو آپکو کیا فرق نظر آتا ہے؟
میرچنگیز خان جمالی: ۲۰۱۰ میں چونکہ سیلاب بڑے وسیع سطح پر تھا اور سارے صوبے متاثر ہوئے تھے۔ تو اس وقت لوگوں کی کافی مدد ہو رہی تھی۔ اور این جی اوز آیءں تھیں، ڈونرز آئے تھے۔ اور ہر طرف سے مدد تھی۔ اس دفعہ میں سمجھتا ہوں کہ اتنا جو ہے میڈیا پر ہائی لایٹ نہیں ہوا۔ یا لوگوں کو اویرنیس (معلومات) نہیں ملی ہے۔ تو اس دفعہ وہ مدد ہمیں نہیں مل سکی۔
تنقید: اس کا وجہ کیا ہے؟
میرچنگیز خان جمالی: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم بلوچستان والے ویسے بھی ہر جگہ مار کھا جاتے ہیں۔ اس میں کچھ ہماری اپنی بھی کوتاہیاں ہیں لیکن مجموعی طور پر میڈیا اور دوسرے لوگوں کا، صرف زبانی کلامی ہمدردی ہے بلوچستان سے ۔ باقی دلوں میں کم ہے۔
تنقید: آخر میں، ان سیلاب کی وجہ کیا تھا اور آگے کیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سیلاب پھر سے ہمیں اگلے سال ۲۰۱۳میں نا نظر آیءں؟
میرچنگیز خان جمالی: دیکھیں جی یہ تو قدرتی وہ ہے۔ دس از بکاز آف دی کلائیمٹ چینج (یہ آب وہوا میں تبدیلی کی وجہ سے ہے) اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے۔ یہ مون سون کے دیر سے آنے کا سلسلہ ہمارے علاقوں میں شروع ہوا ہے۔ اور اس وقت ہوا ہے جب مشکل سے پانچ دس ملی میٹرسالانہ بارش ہوتی تھی۔ لیکن اس دفعہ ڈیڑھ دن کے اندر ساڑھے چار سو ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔ جیکب آباد کی بھی آپ حالت دیکھ لیں۔ جعفر آباد، نصیر آباد، کچھ جھل مگسی کا علاقہ، ادھر سے کنج کوٹ، کشمول ، شکارپور۔ اور پھر ہمارے ہاں پیڈی فصلیں ہوتی ہیں اور سیلائن ایریا ہے (یعنی تھور زدہ علاقہ)۔ اور اوپر سے جب ہل ٹورنٹس (پہاڑی سیلابی ریلے) آگئے اور یہ چیزیں مل گئی ہیں۔ تو اس نے ہمیں متاثر کیا ہے۔ ہمیں جو ابھی تیاری کرنی پڑے گی وہ ابھی، میرا خیال ہے کہ پرائمری سکول سے لے کر بزرگوں تک کو تربیت دینی پڑے گی۔ اس ماحول کے لئے، اس چیلنج کے لئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ قدرتی آفتیں ابھی آگے بھی آئیں گی۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑا اثر ہوا ہے۔ تو ہمیں یہ جو پری وارننگ سسٹم ہیں (یعنی تباہی سے پہلے خطرہ کی نشاندہی کرنے والا سسٹم) اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم ہیں (یعنی تباہی سے نمٹنے کا سسٹم) اسکو زیادہ بہتر بنانا پڑے گا اور اس کے بارے میں آگاہی دینا پڑے گی۔ اور ہم لوگوں کو ٹریننگ ہونی چاہیئے کہ کس طرح ہم فرسٹ ایڈ آپس میں کر سکیں۔ تو میں سمجھتا ہوں مستقبل میں یہ ہر ملک پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور ہمارا ملک تو خاص طور پر پچھلے تین سالوں سے بہت زیادہ متاثر ہو رہاہے۔ اور اس میں کسان ہوں، عام آدمی ہو، یہاں تک کہ شہری علاقوں کا بھی بڑا مسلہ ہو جاتا ہے۔ تو یہ سب چیزوں کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔
تنقید: آپ نے پہلے ابھی آبپاشی کے نظام اوربنیادی ڈھانچے کی بھی بات کی تھی۔ اس کے بارے میں بھی آپ تھوڑا سا بول سکتے ہیں؟
میرچنگیز خان جمالی: یہ اتنے نقصانات ہوئے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا کچھی میدان سے پانی آرہا ہے۔ تین دریا آرہے ہیں۔ وہاں پر کوئی ڈیلے ایکشن ڈیم (پانی کو آہستہ کرنے کے لئے بند) اور اس قسم کے ڈیم ہونے چاہیءں۔ باقی جو ہمارے ڈرینیج سسٹم ہے (نکاسئی آب کا نظام) وہ کم از کم چالیس پچاس ہزار کیوسک سے کم کی تنصیبات نہیں بنی چاہیءں۔ اس سے زیادہ کی بنی چاہیءں۔ پھر یہ جو سڑکوں پر قبضہ ہے یا ان پے پل کم ہیں وہ بڑھائے جائیں۔ تاکہ پانی کو رکاوٹ کم سے کم ہو۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ جو آر بی او ڈی ہے (رایٹ بینک اوور فال ڈرینج) جو ہمارا اور سندھ کا مسئلہ رہتا ہے بلوچستان کے ساتھ۔ تو وہ بھی بیٹھ کے طے ہونا چاہیئے۔ اسکا ڈیزائن بھی دوبارہ سے بنایا جائے تاکہ مستقبل کے لئے ہم پھر ہی بچ سکتے ہیں ورنہ ہم ہر سال یہ مار کھاتے رہیں گے۔
تنقید: کوئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ قدرتی جو بارش آتی ہے وہ تو آتی رہتی ہے۔ اسکا ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ اسکے لئے زیادہ سے زیادہ ہم تیاری کر سکتے ہیں۔ پر جو انفراسٹرکچر (بنیادے ڈھانچے) ہے ۔ مثلاََ آپ نے ایک ویڈیو دیکھائی ہے جس میں پٹ فیڈر کنال کی بات ہوتی ہے۔ آر بی اوڈی کی آپنے بات کی ہے۔ ہی جوپہاڑی سیلابی ریلوں کا قدرتی راستہ ہے اسکو روکتے ہیں۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ اور ان کے بارے میں ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم ان کو مضبوط بھی کر سکتے ہیں۔ ڈرینج کی کپیسٹی (گنجائش یا سکت) بھی بڑھا سکتے ہیں ۔ وہ سارا کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ آپنے یہ بھی کہا ہے پہلے کہ آر بی او ڈی ابھی مکمل ، پورا ختم نہیں ہوا۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑا وجہ ہے۔ اسکے بارے میں آپ تھوڑا بات کر لیں گے۔ اور آپکا کیا خیال ہے۔ اس تجزیہ کے بارے میں۔
میرچنگیز خان جمالی: دیکھیں جی یہ آر بی او ڈی کا میں نے صدرصاحب کو بھی کہا ہے وزیرِاعظم کو، سندھ کے وزیرِاعلٰی اور اپنے (یعنی بلوچستان کے) وزیر اعلٰی اور گورنر صاحب کو۔ تو سب کا اس پہ ہے کی اس پہ بیٹھ کر (بات کی جائے)۔ لیکن ہمارے ملک کے روز حالات ایسے ہو ے ہیں کہ کوئی ہم آپس میں بیٹھے نہیں ہیں۔ تو واپڈا کوانجینئرز اور سندھ اور بلوچستان سب کے انجنیئرز سب کو بیٹھنا چاہیے ۔ اور اس کے مستقبل کا اور اسکی ریسرچ بھی ساتھ ساتھ ہونی چاہیے۔ جو ۲۰۱۰ کے تجربات ہیں۔ ۲۰۱۲ کے ہیں۔ اور یہ سو ڈیڑھ سو سال کی تاریخ کے بعد آرہے ہیں۔ تو میرا خیال میں تو یہ چیزیں ہونی چاہیں۔ مزید یہ کہ ہمارا مستقبل جو ہو تو کم از کم اس قسم کی سٹرکچرکے بارے میں بھی ہمیں کرنا چاہیے۔ گھروں کے لئے بھی آج میں گیا تھا ایک ایگزیبشن تھا ۔ تو وہاں پر نئے سٹرکچرز کے بارے میں خاص طور پر آپکے گھر کس طرح ہونے چاہیءں۔ زیادہ گرمی زیادہ سردی، پھر ابھی بارشوں کا سلسہ۔ تو یہ سب چیزوں کے لئے ہمیں ریسرچ اور کام کرنا پڑے گا۔
تنقید: شکریہ
[…] ہمیں ابھی بھی مدد کی ضرورت ہیں” | میر چنگیز خان جمال… […]
[…] + “We Still Need Help” | Mir Changaiz Khan Jamali […]