انگریزوں نے کیا بہتر کیا | عثمان قاضی
English | اردو
ترقی اور ڈولپمنٹ کی اندھا دھندہ دوڑ میں پاکستانی ریاست نےتو نوآبادیاتی دورکو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور مون سون سیلاب جیسے قدرتی خطرات سے نمٹننے کی حکمت عملی کو نظر انداز کر دیا ہے۔
شاید انگریز اپنے کاموں میں ہمارے ارباب اختیار سے زیادہ مخلص نہ رہے ہوں مگر دور اندیش کہیں زیادہ تھے۔
انگریزوں کے انجینیروں نے جب دریاے سندھ پر بند اور بیراج بنا کر نظام آبپاشی تعمیر کرنے کا ڈول ڈالا تو وہ واقف تھے کہ اس دریا کا بہاؤ اس دھرتی کے باسیوں کے مزاج کی مانند انتہاوں کے بیچ جھولتا رہتا ہے۔ کسی سال تو اس کے وسیع پاٹ میں پانی کی ایک پتلی سی لکیر سے زیادہ کچھ نہیں بہتا اور کبھی مون سون کے جوبن پر لاکھوں کیوسک (مکعب فٹ فی سیکنڈ) پانی کا قیامت خیز دھارا اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہاے لئے جاتا ہے۔
انگریز منصوبہ ساز جانتے تھے کہ دریا کے کناروں پر بناے جانے والے حفاظتی بند کبھی بھی اتنے مضبوط نہیں بناے جا سکتے کہ وہ بڑے سیلاب کو اپنے اندر سمو سکیں اس کے پیش نظر انہوں نے دریاے سندھ کے طاس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں بانٹ دیا۔ موجودہ چشمہ بیراج سے گدو پراج کے درمیان کے علاقے میں تمام تر نظام دریا کے بائیں یا مشرقی کنارے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ دائیں یا مغربی کنارے پر موجود حفاظتی بندات کے کچھ حصوں کو جان بوجھ کر ایسا بنایا گیا تھا کہ اگر پانی کا دباؤ ایک مخصوص حد سے بڑھ جاے تو ان بندات میں شگاف ڈال دیے جائیں اور فاضل پانی دائیں کنارے اور کوہ سلیمان کے درمیانی سطح مرتفع میں جگه جگه جوہڑوں میں کھڑا ہو جاے تاکہ دریا کے دوسرے کنارے پر واقع حفاظتی بندات اور ان کے پیچھے موجود نازک نہری نظام محفوظ رہے۔
گدو سے نیچے یہ ترتیب الٹ جاتی تھی اور نہری نظام دائیں کنارے پر، جبکہ شگاف ڈالنے کے لئے مختص بندات بائیں کنارے پر تھے جہاں سے خارج ہونے والا فاضل سیلابی پانی بھارت میں واقع کچھ کے صحرا میں چلا جاتا تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بے گھر ہونے والے لوگوں اور ان کے مال مویشی کے لئے پناہ گاہوں کی جگه محکمہ مال کے نقشوں میں نشان زد ہوتی تھی اور ان کی امداد اور فوری بحالی کے لئے رقومات ہر سال پیشگی متاثرہ علاقوں کے لئے مختص کی جاتی تھیں۔
صفحات: ١ ٢
Having read that valuable insight, i would suggest Mr Qazi to further elaborate keeping his experience at hand and also having the previllige to working with world bank and UN humanitarian platforms, to come up with what should be future disaster resilient strategies now to cope our ill planned developments…. Not just that what he described about the planned breaches to reduce the pressure of the floods on either bank where necessary or by those who influence certain areas, I would request him about saying something on LBOD, which itself is a disaster in lap, to have his say. Regards Khan
Janaab Qazi sahib–maza aaya! Excellent problem definition.
D.
Qazi sb’s recommendations are in between the lines of his very good analysis..have a land use plan and enforce it too if we want to manage future disasters. Build more dams to attenuate future floods…but that may be seen as surrendering control over water to other Provinces..
صورتحال کا نہایت گہری نظر سے جائزہ لیا ہے آپ نے، معلوماتی بھی ہے اور چشم کشا بھی۔